سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(237) کیا زنا شدہ عورت کی بیٹی سے نکاح درست ہے؟

  • 23002
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1376

سوال

(237) کیا زنا شدہ عورت کی بیٹی سے نکاح درست ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے باغوائے نفس امارہ ایک عورت سے زنا کیا،بعد اُس کے اس مزنیہ لڑکی سے نکاح کیا اور بعد نکاح کے بھی دونوں سے وطی کیاتو یہ نکاح درست ہو ایا نہیں؟برتقدیر عدم جو از کوئی صورت نباہ کی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح مذکورہ درست ہوا،اس لیے کہ یہ عورت ان  عورتوں میں سے نہیں ہے۔جن سے نکاح حرام ہے ،پس بحکم آیت کریمہ:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَراءَ ذ‌ٰلِكُم...﴿٢٤﴾... سورة النساء

"اورتمہارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں"

اس عورت سے  نکاح درست ہوا۔رہا یہ شبہہ کہ یہ عورت اس شخص کی  ربیبہ ہے اور ربیبہ سے نکاح ناجائز ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہہ اس بنا پر ہے کہ  زنا نکاح کے حکم میں ہے اور جب زنا نکاح کے حکم میں ہوتو عورت مذکورہ جو اس شخص کی مزنیہ کی لڑکی ہے،اس شخص کی ربیبہ ہوگئی،لیکن اس بات پر کہ زنا نکاح کے حکم میں ہے ،کوئی شرعی نص نہیں ہے،البتہ بعض ائمہ دین کا اجتہاد ہے۔جو آیت کریمہ:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَراءَ ذ‌ٰلِكُم...﴿٢٤﴾... سورة النساء

"اورتمہارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں"

کے مقابلے میں معتبر نہیں ہوسکتا۔

الحاصل اس مسئلے میں اختلاف ہے اور جب کسی مسئلے میں اختلاف ہو تو اس وقت ہمارے لیے آسمانی قانون یہ ہے کہ ہم اللہ ورسول  صلی اللہ علیہ وسلم   کے قول سے جو بات  ثابت ہو،اس پر کاربند  ہوں۔

اللہ تعالیٰ سورہ نساء رکوع(8) میں فرماتا ہے:

﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورة النساء

"پھر اگر تم کسی چیز  میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کی طرف لوٹا دو،اگر تم اللہ اور  یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو،یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے"

پس اس قانون کے موجب ہم نے اللہ ورسول ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کی طرف رجوع کیا تو اللہ کتاب میں یہ پایا کہ عورت مذکورہ ان عورتوں میں سے نہیں ہے،جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے،جس طرح اوپر معلوم ہوا ،تب بحکم آیت شریفہ:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَراءَ ذ‌ٰلِكُم...﴿٢٤﴾... سورة النساء

یہ  عور ت حلال ٹھہری اور حدیث شریف میں  یہ پایا:

" لا يحرم الحرام الحلال"[1]

  (حرام چیز حلال کو حرام  نہیں کر تی)

(رواہ دارقطنی،ص:402 وابن ماجہ،ص:146،عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ زنا نکاح کے حکم میں نہیں ہے ،ورنہ حرام کا حلال کوحرام کردینا لازم آجائے گا اور حدیث اس کی نافی ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔کتبہ:محمد عبداللہ۔


[1] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 2015) ؟؟؟

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:428

محدث فتویٰ

تبصرے