1۔نکاح زنان بیوگان چہ حکم میداردو لفظ ایامی کہ در کلام مجید وارد شدہ چہ معنی وارد؟ (بیوہ عورتوں کے نکاح کا کیا حکم ہے نیز قرآن مجید میں وارد شدہ لفظ الْأَيَامَىٰ کا کیا معنی ہے؟
2۔مطلقاً نکاح واجب است یا سنت مستحب؟ (مطلقاً نکاح واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب ہے؟)
1۔افسوس ہے کہ اپنے آپ کو اہل علم اسلام کہلا کر جس کا ترجمہ "گردن نہادن بطاعت "(سر تسلیم خم کر دینا )ہے پھر صریح حکم سے گریز کرنا اور نفرت ظاہر کرنا اپنے دعوے کو آپ باطل کرنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ﴾ (النور)بے شوہر عورتوں کا نکاح کردو۔
اس سے ظاہر ہوا کہ ہر بے شوہر عورت کا خواہ بیوہ ہو خواہ ناکد خدا(غیر شادی شدہ) نکاح کرنا چاہیے ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (النكاح من سنتي)[1] (نکاح میری سنت ہے)
(جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی اس کا مجھ سے تعلق نہیں)
اس لیے بھی ہر شخص کو بشرط استطاعت نکاح کرنا ضروری ثابت ہو تا ہے آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین میں جو تمام مسلمانوں کی ماں ہیں بجز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کون ہیں جن کا دو یا تین نکاح نہ ہو چکا تھا؟عقد ثانی قولاًفعلاً ثابت ہے سلفاً اور خلفاً معمول بہ رہا ہے اس سے انحراف سراسر غلطی ہے۔
2۔ نکاح بوقت تیزی خواہش کے واجب ہے اور بوقت تیقن زنا فرض اور حالت اعتدال میں سنت موکدہ اور بوقت خوف جور مکروہ ۔
(ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع (و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه[3](من الدرالمختار ملتقطا)
(غلبہ شہوت کے وقت یہ (نکاح ) واجب ہو گا پھر اگر اسے زنا کے سر زد ہونے کا یقین ہو جائے تو فرض ہے اور یہ اس وقت ہے جب وہ مہر (کی رقم ) اور نان و نفقہ (چلانے ) کا مالک ہوجائے جب کہ صحیح موقف یہ ہے کہ وہ اس صورت میں سنت موکدہ ہے اور حالت اعتدال (وطی مہر اور نان و نفقہ کی قدرت) میں اس کو ترک کرنے والا گناہ گار ہوگا ۔ اگر اسے جور کا ڈر اور خوف ہو تو مکروہ ہے)
اب خیال کرنا چاہیے کہ اکثر لوگوں پر فرض یا واجب یا سنت موکدہ ہے کمتر لوگ ہوں گے جن کے لیے مکروہ ہو گا فقط۔کتبہ : محمد عین الحق الجواب صحیح کتبہ: محمد عبد اللہ۔
[1] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1846)
[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (47776) صحیح مسلم رقم الحدیث (1401)
[3] ۔الدرالمختار مع ردالمختار (3/7)