سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(211) عدت کے دوران نکاح کا حکم

  • 22976
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1504

سوال

(211) عدت کے دوران نکاح کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسمی عبد اللہ نے ہندہ بی بی سے عدت کے اندر نکاح کیا اور صحبت بھی کیا پھر چند لوگوں نے اس کو روکا اور صحبت سے منع کیا پھر جو عدت کا ایام باقی تھا اس کو اختتام کر کے پھر تجدید نکاح کردیا ۔ اب کوئی عالم کہتے ہیں کہ اول نکاح جو عدت میں واقع ہوا باطل ہے اب تم کو پھر عدت کرنا ہو گا پہلی عدت کفارہ میں گئی ہے تو بعد گزرنے عدت جدیدہ کے نکاح کر لینا پس اس صورت میں نکاح پہلا صحیح یا دوسرا ہو گا یا اب جو حساب میں تیسرا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں اختلاف ہے کہ آیا ہندہ پر دو مستقل عدتیں واجب ہیں یا دو متداخل عدتیں؟ ایک قول یہ ہے کہ دو مستقل عدتیں واجب ہیں یعنی ہندہ پر واجب ہے کہ اولاً پہلی عدت کرے اور جب وہ پوری ہو جائے تو اس وقت سے دوسری عدت از سر نو شروع کرے اور جب وہ بھی پوری ہوجائے تب اگر نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو گا اور تا انقضائے اس دوسری عدت کے عبد اللہ اور ہندہ میں تفریق رہنا چاہیے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ دو متداخل عدتیں واجب ہیں یعنی ہندہ پر یہ واجب ہے کہ اولاً پہلی عدت پوری کرے اور اسی پہلی عدت میں دوسری عدت بھی اس وقت  سے شروع ہو جاتی ہے جب سے کہ عبد اللہ اور ہندہ میں تفریق واقع ہوئی ہے یعنی جب سے عبد اللہ نے ہندہ سے صحبت ترک کردی ہے اور جب پہلی عدت پوری ہوجائے تو دوسری عدت کا حصہ جس قدر باقی رہ گیا ہے اسی قدر کو پورا کردے دوسری عدت از سر نواس پر واجب نہیں ہے۔

پہلا قول حضرت عمرو حضرت علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کا ہے اور یہی قول ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور حسب روایت اہل مدینہ یہی قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور اسی قول کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے اختیار کیا ہے اور دوسرا قول زہری رحمۃ اللہ علیہ  اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور بروایت یہی قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور اسی کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اختیار کیا ہے پہلا قول احوط ہے اور اس احوط قول کے مطابق ہندہ کے دونوں نکاح عدت کے اندر واقع ہوئے اور جو نکاح کہ عدت کے اندر واقع ہو۔ وہ نکاح صحیح نہیں ہے اس وجہ سے اس احوط قول کے موافق ان دونوں نکاحوں میں کوئی بھی صحیح نہیں ہوا۔

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ ...﴿٢٣٥﴾... سورة البقرة

(اور نکاح کی گرہ پختہ نہ کرو یہاں تک کہ لکھا ہوا حکم اپنی مدت کو پہنچ جائے)

جب دوسری عدت بھی بالا استقلال ختم ہو جائے تب اگر دوسرا نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو گا ۔ "التلخیص الجبیر"(ص:328) میں ہے۔

اما قول عمر فرواه مالك والشافعي عنه عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب وسليمان بن يسار ان طليحة كانت تحت رشيد الثقفي فطلقها البتته فنكحت في عدتها فضربها عمر وضرب زوجها بالدرة ضربات وفرق بينهما ثم قال عمر:ايما امراة نكحت في عدتها فان كان زوجها الذي تزوجها لم يدخل بها فرق بينهما ثم اعتدت بقية عدتها من زوجها الاول وكان خاطبا من الخطاب وان كان دخل  فرق بينهما ثم اعتدت بقية عدتها من زوجها الاول ثم اعتدت من الاخره ثم لم ينكحها ابدا قال ابن المسيب ولها مهرها بما استحل منها قال البيهقي وروي الثوري عن اشعث عن الشعبي عن مسروق عن عمر انه رجع  فقال لها مهرها ويجتمعان انشاء"
"اما قول علي فرواه الشافعي من طريق زاذان عنه انه قضي في التي تزوج في عدتها انه يفرق بينهما ولها الصداق بما استحل من فرجها وتكمل ما افسدت من عدة الاول وتعتد من الآخر ورواه الدارقطني والبيهقي من حديث اب جريج عن عطاء عن علي نحوه[1]

(عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے قول کو امام مالک و شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس سے ابن شہاب کے واسطے سے روایت کیا ہے وہ سعید بن المسیب اور سلیمان بن یسارسے روایت کرتے ہیں کہ بلا شبہ طلیحہ رشید الثقفی کے نکاح میں تھی رشید نے اسے طلاق بتہ دے دی تو طلیحہ نے اپنی عدت کے دوران میں نکاح کرلیا اس پر عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے اسے اور اس کے خاوند کو درے مارے اور ان کے درمیان جدائی کروادی۔پھر عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا : جو عورت اپنی عدت میں نکاح کر لے تو اگر اس کے اس خاوند نے اس سے دخول نہیں کیا تو ان کے درمیان جدائی کروادی جائے گی ، پھر وہ اپنے پہلے خاوند کی بقیہ عدت گزارنے گی اور یہ (دوسرا خاوند ) دوسرے پیغام نکاح دینے والوں کے ساتھ پیغام نکاح دے سکتا ہے اور اگر اس نے دخول کر لیا ہے تو بھی ان کے درمیان جدائی کروائی جائے گی۔پھر وہ پہلے خاوند کی بقیہ عدت گزارے گی۔پھر دوسرے خاوند کی عدت گزارے گی۔اور پھر یہ( دوسرا خاوند ) کبھی اس سے نکاح نہیں کرے گا ابن المسیب نے کہا دوسرا خاوند اسے مہر دے گا کیوں کہ اس نے عورت کی عصمت کو اپنے اوپر حلال کیا۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  نے اشعت سے روایت کیا ہے انھوں نے شعبی سے انھوں نے مسروق سے انھوں نے عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا کہ انھوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا چنانچہ انھوں نے کہا کہ اسے مہر ملے گا اور پھر اگر وہ چاہیں تو دوبارہ (نکاح  کے ذریعے ) اکٹھے ہو سکتے ہیں۔

رہا علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کا قول تو اسے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے زاذان کے واسطے سے ان سے روایت کیا ہے علی  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے اس عور ت کے بارے میں یہ فیصلہ کیا جس نے اپنی عدت میں نکاح کر لیا کہ ان دونوں میں جدائی کروائی جائے اس عورت کو (دوسرے خاوند سے) مہر ملے گا کیوں کہ اس نے اس کی عصمت کو اپنے لیے حلال کیا پھر وہ پہلے خاوند کی باقی ماندہ عدت پوری کرے پھر دوسرے خاوند کی عدت گزارے ۔امام دارقطنی اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابن جریج سے حدیث روایت کی ہے انھوں نے عطا سے اور عطا نے علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے)

صحیح بخاری (3/234چھاپہ مصر) میں ہے۔

"وقال ابراهيم فيمن تزوج في العدة فحاضت عنده ثلاث حيض:بانت من الاول ولا يحتسب به لمن بعده وقال الزهري تحستب وهذا احب الي سفيان يعني قول الزهري"

(ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کے بارے میں فرمایا جس نے عدت ہی میں نکاح کر لیا پھر اسے تین حیض آئے کہ وہ پہلے سے جدا ہو گئی اور پھر وہ دوسرے نکاح کی عدت کا شمار اس میں نہیں ہو گا لیکن زہری رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ اس میں دوسرے نکاح کی عدت کا شمار ہو گا یہی یعنی زہری کا قول سفیان کو زیادہ پسند ہے)

قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ  شرح صحیح بخاری میں ہے۔

وروي المدنيون عن ماك ان كانت حاضت حيضة او حيضتين من الاول انها تتم بقية عدتها منه ثم تستانف عدة اخري وهو قول الشافعي واحمد[2]

(مدینہ والوں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کیا ہے اگر اسے پہلے خاوند کی عدت سے ایک یا دو حیض آچکے تو وہ پہلے اول شوہر کی باقی ماندہ عدت پوری کرے بعد میں دوسرے خاوند کی عدت گزارے۔یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور احمد رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے)

ہدایہ اولین (ص405چھاپہ مصطفائی ) میں ہے۔

"واذا وطيت المعتده بشبهة  فعليها عدة اخري وتداخلت العدتان ويكون ما تراه المراة من الحيض محتسبا منهما واذا انقضت العدة الاوليٰ ولم تكمل الثانية  فعليها اتمام العدة  الثانية وهذا عندنا وقال  الشافعي لا تداخلان"

(جب عدت گزارنے والی عورت شبہ نکاح کے ساتھ وطی کرے تو اس کے ذمہ ایک اور عدت گزارنا واجب ہو گا اور وہ دو متداخل عدتیں گزارےگی اسے جو حیض آئے گا وہ عدتوں میں شمار ہو گا جب پہلی عدت پوری ہوجائے اور دوسری عدت پوری نہ ہوئی ہو تو اس پر باقی ماندہ دوسری عدت پوری کرنا بھی واجب ہے یہ ہمارا موقف ہے۔ جب کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ وہ متداخل عدتیں نہیں گزارے گی)

واضح رہے کہ یہ جو اوپر لکھا گیا ہے کہ دوسری عدت کے ختم ہو جانے پر ہندہ نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو گا یہ اس تقدیر پر ہے کہ تجدید نکاح کے بعد عبد اللہ نے ہندہ سے پھر صحبت نہ کی ورنہ ہندہ پر قول احوط کے مطابق ایک اور عدت واجب ہے اور جب یہ تیسری عدت بھی پوری ہوجائے تب اگر نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو گا واللہ اعلم بالصواب ۔


[1] ۔التلخیص الجبیر(3/236)

[2] ۔ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری( 8/182)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:403

محدث فتویٰ

تبصرے