رؤیت ہلال اگر ایک شہر میں ہو تو دیگر اہل امصاروبلاد کے لیے بھی اس کا اعتبار ہوگا یا خاص اسی اہل شہر کے لیے رؤیت معتبر ہوگی کہ جہاں رؤیت ہوئی بصورت اول شہادت بذریعہ تار برقی و خطوط و اخبارقابل حجت ہوں گی یا نہیں اور اس حالت میں شہادت واجب التسلیم کس طرح ہونی چاہیے؟دوسری صورت میں جس موضع میں رؤیت ہوئی باہر قرب و جوار کے اقصارو قری کے لیے بھی وہ رؤیت معتبر ہو سکے گی یا نہیں؟اگر ہو سکے گی تو اس کے فاصلے کا کس قدر ہے ؟یعنی جس شہر میں چاند دیکھا گیا اس سے باہر کس قدر فاصلے تک اس رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا؟
رؤیت حلال اگر ایک شہر میں ہو تو دیگر اہل امصاروبلاد کے لیے بھی اس رؤیت کا اعتبار ہو گا ۔
(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چھوڑ دو)
نیل الاوطار (4/79)
"الامر الكائن من رسول الله صلي الله عليه وسلم هو مااخرجه الشيخان وغيرهما بلفظ :(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم وہ ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔"جب تک تم چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور اسے دیکھ کر ہی روزہ رکھنا چھوڑو۔پھر اگر تم پر مطلع ابرآلود ہوتو تیس کی گنتی پوری کرلو۔"یہ حکم کسی خاص علاقے کے لوگوں کے لیے انفرادی طور پر مختص نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں میں سے ہر شخص کے لیے خطاب ہے جس کے لیے وہ مناسب حال ہے پس اس حدیث سے ایک ملک کے باسیوں کو چھوڑکر کسی ایک ملک کے باشندوں کی رویت کے لزوم پر استدلال کرنا اس حدیث سے عدم لزوم پر استدلال کرنے کی نسبت زیادہ ظاہر ہے کیوں کہ جب اسے ایک ملک کے باشندے دیکھ لیں گے تو مسلمانوں نے بھی اسے دیکھ لیا تو ان پر بھی وہی کچھ لازم آئے گا جو دوسروں پر لازم ہے)
اس باب میں امور دینیہ میں تار برقی کی خبر یا شہادت کا قابل حجت ہونا شرعاً ثابت نہیں ہے اور خطوط اگر موثوق بہا ہوں۔ یعنی ان خطوط پر وثوق ہو کہ وہ ثقات کے لکھے ہوئے ہیں تو قابل حجت ہوں گے صحیح بخاری (4/194)چھاپہ مصر) میں ہے۔
(انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روم (کے بادشاہ ) کی طرف خط لکھے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے( آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو) بتایا کہ وہ (رومی بادشاہ وغیرہ ) مہر زدہ خط ہی قبول کرتے اور پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی (مہر) بنوائی گویا کہ میں اس کی چمک کو ابھی بھی ) دیکھ رہا ہوں اس انگوٹھی پر یہ نقش تھا :"محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ")
اس صفحہ میں ہے۔
"وقد كتب النبي صلى الله عليه وسلم إلى أهل خيبر إما أن تدوا صاحبكم وإما أن تؤذنوا بحرب" [3]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کو خط لکھا کہ یا تو اپنے ساتھی کی دیت ادا کرو ۔یا لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ )
اسی طرح اخبار سماعی اگرموثوق بہا ہوں۔یعنی وہ ثقات کی خبریں ہوں تو قابل حجت ہیں کما حقق فی الاصول واللہ اعلم بالصواب۔
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1810)صحیح مسلم رقم الحدیث (1081)
[2] ۔۔صحیح البخاری رقم الحدیث (6743)صحیح مسلم رقم الحدیث (2092)
[3] ۔مصدر سابق۔