سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(192) رؤیت حلال کتنے فاصلے تک معتبر ہو گی؟

  • 22957
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1148

سوال

(192) رؤیت حلال کتنے فاصلے تک معتبر ہو گی؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رؤیت ہلال اگر ایک شہر میں ہو تو دیگر اہل امصاروبلاد کے لیے بھی اس کا اعتبار ہوگا یا خاص اسی اہل شہر کے لیے رؤیت معتبر ہوگی کہ جہاں رؤیت ہوئی بصورت اول شہادت بذریعہ تار برقی و خطوط و اخبارقابل حجت ہوں گی یا نہیں اور اس حالت میں شہادت واجب التسلیم کس طرح ہونی چاہیے؟دوسری صورت میں جس موضع میں رؤیت ہوئی باہر قرب و جوار کے اقصارو قری کے لیے بھی وہ رؤیت معتبر ہو سکے گی یا نہیں؟اگر ہو سکے گی تو اس کے فاصلے کا کس قدر ہے ؟یعنی جس شہر میں چاند دیکھا گیا اس سے باہر کس قدر فاصلے تک اس رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رؤیت حلال اگر ایک شہر میں ہو تو دیگر اہل امصاروبلاد کے لیے بھی اس رؤیت کا اعتبار ہو گا ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ[1](متفق علیه)

(ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چھوڑ دو)

نیل الاوطار (4/79)

"الامر الكائن من  رسول الله صلي الله عليه وسلم هو مااخرجه الشيخان وغيرهما بلفظ :
((لاتصوموا حتيٰ تروا الهلال ولا تفطروا حتيٰ تروه فان غم عليكم فاكملوا العدد  ثلاثين))
وهذا لايختص باهل ناحية علي جهة الانفراد بل هو خطاب لكل  من يصلح له من مسلمين فلااستدلال به علي لزوم رؤية اهل بلد لغيرهم من اهل البلاد اظهر من استدلال به علي عدم اللزوم لانه اذا راه اهل بلد فقد راه المسلمون فيلزم غيرهم لا لزمهم انتهي"

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم وہ ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔"جب تک تم چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور اسے دیکھ کر ہی روزہ رکھنا چھوڑو۔پھر اگر تم پر مطلع ابرآلود ہوتو تیس کی گنتی پوری کرلو۔"یہ حکم کسی خاص علاقے کے لوگوں کے لیے انفرادی طور پر مختص نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں میں سے ہر شخص کے لیے خطاب ہے جس کے لیے وہ مناسب حال ہے پس اس حدیث سے ایک ملک کے باسیوں کو چھوڑکر کسی ایک ملک کے باشندوں کی رویت کے لزوم پر استدلال کرنا اس حدیث سے عدم لزوم پر استدلال کرنے کی نسبت زیادہ ظاہر ہے کیوں کہ جب اسے ایک ملک کے باشندے دیکھ لیں گے تو مسلمانوں نے بھی اسے دیکھ لیا تو ان پر بھی وہی کچھ لازم آئے گا جو دوسروں پر لازم ہے)

اس باب میں امور دینیہ میں تار برقی کی خبر یا شہادت کا قابل حجت ہونا شرعاً ثابت نہیں ہے اور خطوط اگر موثوق بہا ہوں۔ یعنی ان خطوط پر وثوق ہو کہ وہ ثقات کے لکھے ہوئے ہیں تو قابل حجت ہوں گے صحیح بخاری (4/194)چھاپہ مصر) میں ہے۔

عن أَنَس رَضِي اللَّه عَنْه قال : لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الرُّومِ ، قِيلَ لَهُ : إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَخْتُومًا ، فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ ، وَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ " ) متفق عليه ( .[2]

(انس بن مالک رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے روم (کے بادشاہ ) کی طرف خط لکھے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے( آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ) کو) بتایا کہ وہ (رومی بادشاہ وغیرہ ) مہر زدہ خط ہی قبول کرتے اور پڑھتے ہیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چاندی کی انگوٹھی (مہر) بنوائی گویا کہ میں اس کی چمک کو ابھی بھی ) دیکھ رہا ہوں اس انگوٹھی پر یہ نقش تھا :"محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ")

اس صفحہ میں ہے۔

"وقد كتب النبي صلى الله عليه وسلم إلى أهل خيبر إما أن تدوا صاحبكم وإما أن تؤذنوا بحرب" [3]

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل خیبر کو خط لکھا کہ یا تو اپنے ساتھی کی دیت ادا کرو ۔یا لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ )

اسی طرح اخبار سماعی اگرموثوق بہا ہوں۔یعنی وہ ثقات کی خبریں ہوں تو قابل حجت ہیں کما حقق فی الاصول واللہ اعلم بالصواب۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1810)صحیح مسلم رقم الحدیث (1081)

[2] ۔۔صحیح البخاری رقم الحدیث (6743)صحیح مسلم رقم الحدیث (2092)

[3] ۔مصدر سابق۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصوم ،صفحہ:381

محدث فتویٰ

تبصرے