اختلاف مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟
اختلاف مطالع شرعاً ضرور معتبر ہے اس لیے کہ بہت سے بلاد شرقیہ ایسے ہیں کہ جس وقت ان میں صبح صادق ہوتی ہے اور نماز فجر کا وقت ہوجاتا ہے اور سحری کا وقت باقی نہیں رہتا اس وقت بہتیرے بلاد غربیہ میں رات رہتی ہے۔اور نماز فجر کا وقت نہیں ہوتا اور سحری کا وقت باقی رہتا ہے پس اگر اختلاف مطالع شرعاً معتبر نہ ہوتو یہ لازم آجائے گا۔کہ اسی وقت ان بلاد غربیہ میں جہاں ہنوز صبح نہیں ہوئی ہے بلکہ رات باقی ہے شرعاًنماز فجر فرض اور سحری ناجائز ہوجائے۔وھوکما تری۔
اسی طرح بہتیرے بلاد شرقیہ و غربیہ ایسے ہیں کہ جس وقت ان میں سے ایک میں ظہر کا وقت ہوجاتا ہے اس وقت دوسرے میں نصف النہار بھی نہیں ہوتا یا اسی وقت دوسرے میں عصر کا وقت ہو جا تا ہے بلکہ بہتیرے بلاد شرقیہ و غربیہ ایسے بھی ہیں جن میں اس قدر اختلاف پڑجاتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک میں صبح ہے اور دوسرے میں شام تو اگر اختلاف مطالع شرعاً معتبر نہ ہو تو یہ لازم آجائے گا کہ ایک ہی وقت میں دونوں جگہوں میں شرعاً نماز مغرب ایک ساتھ فرض ہوجائے وھوکما تری۔
بلکہ یہ لازم آجائے گا کہ تمام بلاد میں(خواہ شرقی ہوں یا غربی شمالی ہوں یا جنوبی) ہر وقت کل نماز یں(ظہر عصر مغرب عشاء فجر) ایک ساتھ شرعاًفرض ہوجائیں ۔کیونکہ ہر وقت کسی نہ کسی جگہ کسی نماز کا وقت ضرور ہوتا ہے ۔
"كما لا يخفي علي الماهر وفي ذلك تكليف لا لا يطاق وهو مدفوع شرعاً"(جیسا کہ ایک ماہر آدمی پر مخفی نہیں اور اس میں ناقابل استطاعت امر مکلف بنانا ہے اور وہ شرعاً درست نہیں ہے)
اسی طرح اگر اختلاف مطالع شرعاً معتبر نہ ہو تو یہ لازم آجائے گا کہ ماہ رمضان میں ہر وقت تمام بلاد میں صوم و افطار دونوں ایک ساتھ فرض ہو جائیں کیونکہ ہر وقت کسی نہ کسی جگہ دن ہے اور کسی نہ کسی جگہ رات ۔
"كما لا يخفي علي الماهر وفي ذلك تكليف المحال ما لا يخفيٰ "اس مسئلہ اختلاف مطالع کے شرعاً معتبر ہونے میں حدیث ذیل سے بھی استثناس ہو سکتا ہے۔
(کریب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ) ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو شام میں معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا چنانچہ میں شام آیا اور وہاں ان کا کام مکمل کیا۔ اسی دوران میں رمضان کا چاند نظر آگیا جب کہ میں ابھی شام ہی میں تھا ہم نے جمعہ کی شام کو چاند دیکھا پھر مہینے کے آخر میں مدینے واپس پہنچا تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے حال احوال پوچھے اور چاند کا ذکر کیا کہ تم نے اسے کب دیکھا تھا؟میں نے کہا: ہم نے اسے جمعے کی رات کو دیکھا تھا۔انھوں نے کہا: کیا تم نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا۔ پھر سب نے روزے رکھے اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روزہ رکھا انھوں نے کہا:مگر ہم نے اسے ہفتے کی رات کو دیکھا تھا اور ہم روزے رکھیں گے اور (اپنی رؤیت کے مطابق ) پورے تیس کریں گے یا چاند دیکھ لیں ۔میں نے کہا کیا آپ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چاند دیکھنے اور روزے رکھنے پر کفایت نہیں کریں گے؟انھوں نے کہا : نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسے ہی حکم دیا ہے)
والقول بان هذا الحدي ليس بمحكم في هذا المعني لجواز ان يكون مراد ابن عباس انا لا نكتفي بروئية معاوية بنقلك هذا حتي تثبت لنا بحجة شرعية ويدل عليه قوله:انت رايته ليلة الجمعة؟فمفاده انك اذا لم تره بنفسك ‘واخبرت برؤية الناس فهذا رواية الناس بهذا الوجه من الاخبار لانكتفي به غير قادح في الاستيناس بهذا الحديث في هذه المسئلة فان كريبا قد ذكر رؤية الهلال بنفسه مرارا في هذا الحديث منها قوله:فرايت الهلال ليلة الجمعة؟ ومنها قوله: رايناه ليلة الجمعة ومنها قوله:نعم في جواب سوال ابن عباس رضي الله عنه انت رايته؟(یہ کہنا کہ یہ حدیث اس معنی میں محکم نہیں ہے کیوں کہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد یہ ہو کہ ہم تیری اس نقل اور روایت کی بنا پر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رویت پر اکتفا نہیں کریں گے حتی کہ ہمیں کوئی شرعی دلیل مل جائے اس بات پر دلیل ان کایہ قول ہے تم نے خود اسے جمعہ کی شام دیکھا تھا؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے خود اسے نہیں دیکھا اور تم نے صرف لوگوں کی رؤیت کی خبر دی ہے تو اس اعتبار سے یہ لوگوں کی روایت ہے اور ان اخبار سے ہے جس پر ہم اکتفا نہیں کریں گے تو اس مسئلے میں اس حدیث سے استئناس کرنے میں یہ احتمال غیر قادح ہے کیوں کہ اس حدیث میں کریب رحمۃ اللہ علیہ نے کئی بار خود چاند دیکھنے کا ذکر کیا ہے چنانچہ ان کا قول ہے پس میں نے جمعہ کی شب چاند دیکھا ۔نیز ان کا کہنا ہے ہم نے اسے جمعے کی رات کو دیکھا ۔ ایسے ہی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے استفسار پر کہ تونے خود اسے دیکھا۔ ان کا یہ جواب دینا : جی ہاں)
(الحدیث رواہ الشیخان واللہ تعالیٰ اعلم)
(روزے ،نماز ،حج، اور قربانی وغیرہ میں یہ فرق کہ روزے میں اختلاف مطالع کو معتبر نہیں سمجھا گیا کیوں کہ حدیث (صوموالرؤیۃ )اسے دیکھ کر روزے کے متعلق مطلق رؤیت کا خطاب عام ہے برخلاف نماز ،حج اور قربانی وغیرہ کے تو یہ قطعاً نفع بخش نہیں ہے کیوں کہ نماز ،حج اور قربانی تمام میں مطلق اوقات کے ساتھ حکم عام ہے جیسے ظہر کی نماز کے لیے زوال شمس کا وقت عصر کی نماز کے لیے ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہونے کا وقت نمازمغرب کے لیے غروب آفتاب کا وقت نماز عشاء کے لیے شفق کے غروب ہونے کا وقت صبح کی نماز کے لیے فجر صادق طلوع ہونے کا وقت ۔ مثال کے طور پر جبریل علیہ السلام کی اس حدیث میں جسے احمد نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت کیا ہے اور جیسے فرمان باری تعالیٰ:
میں حج کے لیے معلوم مہینے اور جیسے قربانی کے لیے عید الاضحیٰ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد کا وقت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نحر والے دن خطاب کرتے ہوئے فرمایا "اس دن ہم سب سے پہلا کام یہ کریں گے کہ ہم نماز ادا کریں پھر ہم لوٹیں گے۔الحدیث ۔"اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے)کتبہ : محمد عبد اللہ (4/ذی الحجۃ 1327ھ)
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1087)سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2332)سنن الترمذی رقم الحدیث (693)سنن النسائی رقم الحدیث (2111)مسند احمد (1/306)