زید سے دس روزے ماہ رمضان کے چھوٹ گئے اور اب دوسرا رمضان شریف بھی آپہنچاکل بارہ یا تیرہ روز اور باقی رہ گئے ہیں تو اب اس صورت میں زید کو کیا کرنا چاہیے؟
اگر زید سے رمضان کے روزے عذرمرض یا سفر کی وجہ سے چھوٹ گئے ہیں تو ان کے عوض دس روزے دوسرے دنوں میں رکھ لے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی جو شخص تم لوگوں میں سے بیمارہویا سفر میں ہو تو گنتی پوری کرے دوسرے دنوں سے۔ اگر کھانے یا پینے سے قصداًروزہ تو ڑا ہے تو اس نے بڑا گناہ کا کام کیا ہے اپنے اس گناہ پر نادم ہو۔کر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں توبہ کرے اپنی مغفرت چاہے اور قصداًکھاپی کر روزہ توڑنے والے پر بعض آئمہ کے نزدیک کفارہ دینا لازم ہے اور بعض کے نزدیک نہیں۔
جامع ترمذی (ص95مطبوعہ دہلی ) میں ہے۔
(جس شخص نے کچھ کھاپی کر عمداً روزہ توڑدیا تو اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض نے کہاہے کہ اس کو روزے کی قضا کے ساتھ ساتھ اس کا کفارہ بھی دینا ہو گا ،چنانچہ انھوں نے کھانے پینے کو جماع کے ساتھ تشبیہ دی ہے یہ موقف سفیان ثوری عبد اللہ بن مبارک اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا ہے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس پر روزے کی قضاہے کفارہ نہیں ہے کیوں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف جماع کی صورت میں کفارے کو روایت کیا گیا ہے کھانے پینے کے بارے میں نہیں چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ کھانا پینا جماع کے مشابہ نہیں ہے یہ قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے)
مگر جو لوگ اس صورت میں کفارہ واجب کہتے ہیں ان کے پاس کوئی کافی ثبوت نہیں ہے اور جو دلائل وجوب کفارہ پر پیش کیے جاتے ہیں ان سے احتجاج صحیح نہیں ۔ وجوب کفارہ پر دارقطنی کی یہ ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔
(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کچھ کھالیا (اور روزہ توڑدیا )تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک گردن (غلام لونڈی ) آزاد کرے یا دو مہینے کے روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے)
مگر یہ روایت ضعیف ہے اس کا ایک راوی ابو معشر قوی نہیں ہے چنانچہ خود دارقطنی اس حدیث کے بعد ہیں ۔
"ابو معشر هو نجيح لیس بالقوی "(ابو معشر نجیح قوی نہیں ہے)
مولانا عبد الحی صاحب مرھوم "التعلیق الممجد "میں فرماتے ہیں۔
(اس سلسلے میں استدلال کے لیے بہتر ہے وہ ہے جسے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن کعب کے واسطے سے بیان کیا ہے وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گردن (غلام لونڈی) آزاد کرنے کا حکم دیا۔لیکن اس کی سند ضعیف ہے کیوں کہ محمد بن کعب سے روایت کرنے والا راوی ابو معشر ضعیف ہے)
وجوب کفارہ پر ایک یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے ہدایہ (ص123مطبوعہ علوی) میں مذکورہے۔
"من أفطر في رمضان متعمداً فعليه ما على المظاهر."(جس نے رمضان کا کوئی روزہ توڑاتو اس پرظہار کرنے والے آدمی جیسا کفارہ ہے)
مگر اس حدیث کا پتا اس لفظ کے ساتھ ہدایہ کے مخرجین کو نہیں لگا ہے چنانچہ زیلعی فرماتے ہیں۔
قلت غريب بهذا اللفظ[3]اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں
"لم اجده هكذا"[4](مجھے یہ حدیث اس طرح نہیں ملی)
پس جب تک اس حدیث کا پتا اس لفظ کے ساتھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس حدیث سے استدلال کیسے صحیح ہوگا؟اس حدیث سے استدلال کرنے والے کو لازم ہے کہ اولاًیہ بتائے کہ یہ حدیث کس کتاب کی ہے اور صحیح ہے یا ضعیف ؟پھر بعد اس کے اس سے استدلال کا قصد کرے۔ وجوب کفارہ پر بخاری اور مسلم کی یہ ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے۔
(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو جس نے رمضان کا روزہ توڑاتھا۔گردن (غلام لونڈی)آزاد کرنے کا یا پے درپےدو مہینوں کے روزے رکھنے کا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا)
مگر اس روایت سے بھی احتجاج صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث سے وجوب کفارہ پر احتجاج صحیح نہ ہونے کی وجہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں۔
ومن أصحابنا من احتج بحديث أبي هريرة المتقدم ، وليس فيه حجة ، لأنهم يحملونه على الجماع ، قالوا : وقد جاء مبينا في رواية جماعة عن الزهري نحو العشرين رجلا ، ذكرهم البيهقي ، فقالوا فيه : إن رجلا وقع على امرأته في رمضان ، قال البيهقي : ورواية هؤلاء الجماعة عن الزهري مقيدة بالوطء أولى بالقبول لزيادة حفظهم ، وأدائهم الحديث على وجهه ،[5](ہمارے اصحاب میں سے وہ بھی ہے جس نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیث سے حجت پکڑی ہے جب کہ اس میں کوئی حجت نہیں ہے کیوں کہ انھوں نے اس (مذکورہ بالا حدیث ) کو جماع پر محمول کیا ہے چنانچہ انھوں نے کہا کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے تقریباً بیس آدمیوں کی جماعت سے یہ روایت وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے جن کا امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے۔ ان تمام نے اس حدیث میں یہ وضاحت کی ہے کہ ایک آدمی نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے اس جماعت کی روایت کو وطی کے ساتھ مقید کرنا زیادہ لائق قبول ہے کیوں کہ وہ
(اصحاب زہری رحمۃ اللہ علیہ ) زیادہ حافظ اور اس کو صحیح طرح بیان کرنے والے ہیں)
وقال الحافظ حجررحمةالله عليه في تخريج الهداية ((وقد ورد في بعض طرقه ان النبي صلي الله عليه وسلم امر رجلا افطر في رمضان ان يعتق رقبه الحديث واخرجه الدارقطني عن ابي هريره رضي الله عنه امر الذي افطر يوما من رمضان بكفارة الظھار والحديث واحد والقصة واحدة والمراد انه افطر بالجماع لا بغيره توفيقا بين الاخبار[6](حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ہدایہ کی تخریج میں اس سلسلے کی مختلف خبروں میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کے بعض طرق میں یہ مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو گردن آزاد کرنے کا حکم دیا جس نے رمضان کا روز ہ تو ڑا تھا ۔ الحدیث اس حدیث کو امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے جس میں اس شخص کو ظہار کا کفارہ دینے کا حکم ہے جس نے رمضان کا روزہ توڑا تھا یہ حدیث اور وہ واقعہ ایک ہی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص نے جماع کے ذریعے روزہ توڑا تھا نہ کہ کسی اور طریق سے)
انھیں مذکورہ روایتوں سے قصداً کھا پی کر روزہ توڑنے والے پر کفارہ واجب کہا جاتا ہے اور ظاہر ہوا کہ ان روایتوں سے مطلوب نہیں ثابت ہوتا ۔ ہاں قصداًجماع سے روزہ توڑنے والے پر کفارہ بلاشبہ واجب ہے۔کیونکہ اس بارے میں صحاح ستہ و دیگر کتب احادیث میں نص صریح موجود ہے قصداًجماع سے روزہ توڑنے پر قیاس کرنا ہر گز صحیح نہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں بڑا فرق ہے۔پہلی صورت سے دوسری صورت کہیں افحش ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مصفی شرح موطا"میں فرماتے ہیں۔
"وغیر جماع رابرجماع حمل نتواں کردزیر اکہ جماع افحش است و لہٰذا درا عتکاف اکل و شرب جائز داشتند نہ جماع را"[7]انتھی۔
(غیر جماع کو جماع پر محمول نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ جماع افحش ہے لہٰذا دوران اعتکاف کھانے پینے کو جائز کیا گیا ہے نہ کہ جماع کو)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ "فتح الباری" میں فرماتے ہیں۔
والفرق بين الانتهاك بالجماع والاكل ظاهر فلا يصح القياس المذكور[8](جما ع کے ساتھ روزہ توڑنے اور قصداً کھانے پینے سے روزہ توڑنے میں فرق ظاہر ہے لہٰذا مذکورہ قیاس درست نہیں ہے)
باقی رہا قضارکھنا پس قصداً جماع سے روزہ توڑنے والے کو قضا رکھنا بعض روایتوں سے ثابت ہے۔"تلخیص الجبیر"(ص196) میں ہے۔
(بعض روایات میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو کہا کہ اس دن کے عوض ایک دن کا روزہ رکھ کر قضا دو۔ابو داؤد نے ہشام بن سعد کے واسطے سے بیان کیا ہے وہ زہری سے بیان کرتے ہیں وہ ابو سلمہ سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے ہشام کی وجہ سے اسے معلول قراردیا ہے جب کہ ابراہیم بن سعد نے ان کی متابعت کی ہے جس طرح ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں اسے روایت کیا ہے۔
سعید بن منصور نے کہا کہ ہمیں عبد العزیز بن محمد نے بیان کیا ہے انھوں نے ابن عجلان سے روایت کیا ہے انھوں نے مطلب بن ابی و داعہ سے اور انھوں نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے رمضان میں(روزے کے دوران میں) اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ کی طرف توبہ کر اس سے بخشش طلب کر۔صدقہ دے اور اس دن کے عوض ایک دن کا روزہ رکھ)
قصداً کھانے یا پینے سے روزہ توڑنے والے کے قضا رکھنے کی نسبت اختلاف ہے بعض کے نزدیک قضا رکھنا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں۔
[1] ۔سنن الترمذی (3/102)
[2] ۔التعلیق الممجد(2/161)
[3] ۔نصب الرایۃ (1/279)
[4] ۔الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ (1/279)نیز اسے علامہ ابن ہمام حنفی نے بھی ضعیف کہا ہے۔فتح القدیر(2/33)مرقاۃ المفاتیح (433)
[5] ۔نصب الرایۃ (2/328)
[6] ۔الدرایۃ لابن حجر (1/279)
[7] ۔ المصفی مع المسوی (1/237)
[8] ۔فتح الباری(4/161)
[9] ۔التلخیص الجبیر(2/207)