علمائے دین اس مسئلے میں کیا فرماتے ہیں کہ مال کی زکوۃ اور عشراور عید کا صدقہ ہر نکالنے والا اپنے طور پر غربا و مساکین کو بانٹ دے یا اپنے سردار کے حوالے کردے یا سردار خود طلب کرکے اپنے طور پر تقسیم کرے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد شریف میں کیا دستور تھا؟
زکوۃ اور عید کا صدقہ زکوۃ دینے والا اور صدقہ نکالنے والا اپنے طور پر غرباومساکین کو نہ بانٹے بلکہ اپنے سردار یا اس کے نائب کے حوالے کردے یا سردار خود طلب کر کے اپنے طور پر اس کو تقسیم کروا دے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد شریف میں یہی دستور تھا ۔
مشکوۃ شریف کی کتاب الزکوۃ کی فصل اول میں ہے۔
(ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ تم اہل کتاب کے پاس جاتے ہو پہلے ان کو یہ ہدایت کرو کہ وہ اس بات کا اقرارکریں کہ خدا کے سوا کوئی پوجنے کے قابل نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر وہ اس کو مان لیں تو ان کو یہ تعلیم کرنا کہ اللہ نے ان پر رات دن میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو یہ سکھانا کہ اللہ پاک نے ان پر زکات[2]بھی فرض کی ہے کہ ان کے مالداروں سے لی جائے اور ان کے فقیروں کو بانٹی جائے)فتح الباری3/284چھاپہ مصر)میں ہے۔
قوله:((توخذ من اغنيائهم)) استدل به علي ان الامام هو الذي يتولي قبض الزكاة وصرفها اما بنفسه واما بنائبه فمن امتنع منها اخذت منه قهرا انتهي[3]انتھی(یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے مال داروں سے لی جائے اور ان کے فقیروں کو بانٹی جائے دلیل ہے کہ سردار ہی زکات کے لینے اور اس کے بانٹے کا مالک ہے خود سردار ہی تحصیل کرے یا اپنے نائب کے ذریعے سے تحصیل کرائے تو جو شخص تحصیل تو جو شخص تحصیل دار کو نہ دے اس سے جبراًلی جائے گی۔ الخ۔)
"التلخیص الجبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر "ص:178)میں ہے۔
"حديث سعد بن أبي وقاص وأبا هريرة وأبا سعيد الخدري سئلوا عن الصرف إلى الولاة الجائرين فأمروا به سعيد بن منصور عن عطاف بن خالد وابي معاوية وابن ابي شيبة عن بشر بن المفضل ثلاثتهم وعن سهيل بن أبي صالح عن أبيه قال : " اجتمع عندي نفقة فيها صدقة - يعني بلغت نصاب الزكاة - فسألت سعد بن أبي وقاص وابن عمر وأبا هريرة وأبا سعيد الخدري أن أقسمها أو أدفعها إلى السلطان ، فأمروني جميعا أن أدفعها إلى السلطان ما اختلف علي منهم أحد " . وفي رواية فقلت لهم : " هذا السلطان يفعل ما ترون فأدفع إليهم زكاتي ؟ فقالوا كلهم : نعم فادفعها " . رواهما الإمام سعيد بن منصور في مسنده..........الي أخراور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ظالم سرداروں کو زکات دینے کا فتوی پوچھا گیا تو ان لوگوں نے ان کو زکات دینے کا حکم کیا۔ اس کو سعید بن منصور نے عطاف بن خالدابو معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے اور ابن ابی شیبہ سے بشر بن مفضل سے روایت کیا ہے اور تینوں نے سہیل بن ابو صلح سے روایت کی ہے اور سہیل نے اپنے ابو صالح سے کہ میرے پاس اتنا مال ہوگیا تھا جس پر زکات فرض ہوتی ہے تو میں نے سعد بن ابی وقاص اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ میں خود اس کو بانٹ دوں یا سردار کے حوالے کروں؟ تو کسی نے اختلاف نہ کیا بلکہ سب نے بالاتفاق یہی جواب دیا کہ سردار کے حوالے کرو اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے کہا کہ یہ سردار جو کچھ کرتے ہیں وہ تو آپ دیکھتے ہی ہیں اس پر بھی اپنی زکات ان کے حوالے کر دوں؟فرمایا : ہاں اس کو بیہقی نے ان لوگوں سے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں سے روایت کیا ہے۔
اور ابن ابی شیبہ سے قزعہ کی سند سے روایت کی ہے انھوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میں مال دار ہوں پس اس کی زکات کس کو دوں؟کہا کہ ان لوگوں کے حوالےکر یعنی سرداروں کے۔میں نے کہا کہ وہ تو اس کو اپنے کپڑے اور خوشبو میں خرچ کر ڈالیں گے کہا تمھاری بلا سے ۔ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے نافع کی سند سے روایت کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اپنے مالوں کی زکات ان سرداروں کے حوالے کرو جن کو اللہ نے تمھارے کام کا والی بنایا ہے جو سردار نیک برتاؤ کرے گا اپنا بھلا کرے گا جو برا، برتاؤ کرے گا اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔
اسی باب میں ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی روایت کی ہے اور ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے خیثمہ سے جو روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زکات کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ سرداروں کے حوالے کرو پھر اس کے بعد ان سے پوچھا تو کہا کہ ان کو مت دے کیوں کہ انھوں نے نماز کو ضائع کر ڈالا مگر یہ روایت ضعیف ہے اس میں راوی جابر جعفی بہت ہی ضعیف ہے۔
اس امر کی دلیل کہ سردار کیسا ہی ہو مگر زکات اسی کو دینا چاہیے وہ حدیث ہے جس کو مسلم نے جریر سے مرفوعاًروایت کی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"زکات لینے والوں کو راضی رکھو۔"یہ اس وقت فرمایا تھا جب بدوؤں نے نالش کی تھی زکات لینے والے اگر ہم پر ظلم کرتے ہیں اور ابو داؤد نے جابر بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے "قریب ہے تمھارے پاس ظالم تحصیل دارآئیں گے وہ جب آئیں تمھارے پاس تو تم ان کو خوش کرو اور وہ جو چاہیں ان کو لینے دو ۔اگر وہ انصاف کریں گے تو اپنا بھلا کریں گے اور بے انصافی کریں گے تو اس کا وبال انھیں پر ہے بہر حال ان کو راضی رکھو ۔کیوں کہ تمھاری زکات کا پورا ہونا ان کو راضی رکھنے میں ہے۔ "اور طبرانی نے اوسط میں سعد بن ابی وقاص سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ"اس زکات کو سردار کے حوالے کرو جب تک وہ پانچوں وقت کی نمازیں پڑھیں ۔"اور احمد اور حارث اور ابن وہب نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے آکر عرض کی۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میں زکات آپ کے تحصیل دار کے حوالے کردوں تو کیا میں اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک بری ہوجاؤں گا۔ فرمایا :"ہاں اور تیرے لیے اس کا ثواب ہے اور اس کا گناہ اس پر ہے جو اس کو بدل ڈالے۔"
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدقہ فطر دودن پہلے اس شخص کے پاس بھیج دیا کرتے تھے جس کے پاس فطرہ جمع کیا جا تا تھا اس کو امام مالک نے موطا میں روایت کی ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں دودن یا تین دن ہے۔ اور بخاری کی روایت میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عید الفطرسے ایک یا دو دن قبل صدقہ فطر لینے والوں کو دے دیا کرتے تھے)
فتح الباری میں ہے۔
"وكان ابن عمر رضي الله عنهما يعطيها للذين يقبلونها ،وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين" قال الحافظ"يعطيها للذين يقبلونها :أي الذي ينصبه الإمام لقبضها ؛وبه جزم ابن بطال، وقال ابن التيمى :معناه من قال أنا فقير، والأول أظهر ،ويويده ما وقع في نسخة الصغاني عقب الحديث 'قال أبو عبدالله هو المصنف :كانوا يعطون للجمع لا للفقراء' وقد وقع في رواية ابن خزيمة من طريق عبدالوراث عن أيوب "قلت متى كان ابن عمر يعطى؟قال:إذا قعد العامل .قلت متى يقعد العامل ؟قال قبل الفطر بيوم أو يومين" ولمالك في الموطأ عن نافع "أن ابن عمر كان يبعث زكاة الفطر إلى الذي يجمع عنده قبل الفطر بيومين أو ثلاثة"انتهى واخرجه الشافعي عنه وقال هذا حسن وانا استحبه يعني تعجيلها قبل اليوم الفطر وفي الحديث بعث الامام العمال لجباية الزكاة[4](راوی کا یہ قول ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدقہ فطر لینے والوں کو دے دیا کرتے تھے اس کا یہ مطلب ہے کہ اس شخص کے حوالےکردیا کرتے تھے جس کو امام نے فطرہ تحصیلنے کے لیے مقرر کیا تھا اور ابن بطال نے بھی یہی معنی سمجھا ہے اور ابن تیمی نے کہا کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو اپنے کو فقیر کہتا ہو ۔اس کو دے دیتے اور پہلی بات (کہ تحصیل دار کو دے دیا کرتے تھے)زیادہ صاف ہے اور وہ روایت اس معنی کی تائید کرتی ہے جو صغانی کے نسخے میں اسی حدیث کے پیچھے ہے کہ امام ابو عبد اللہ بخاری نے کہا کہ وہ لوگ جمع کرنے کے لیے دے دیتے تھے نہ کہ فقیروں کو بانٹ دیتے تھے اور ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ عبدالوارث کی سند سے ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کب دیتے تھے۔کہا: تحصیل دار جب تحصیلنے کے لیے بیٹھتا میں نے پوچھا تحصیل دار کب بیٹھتا تھا کہا: عید کے دو ایک دن قبل اور امام مالک کی موطا میں نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عید کے دو تین دن پہلے ہی زکات فطر اس کے پاس بھیج دیا کرتے تھے جس کے پاس جمع ہونا تھا اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی انھیں سے روایت کی ہے۔
اور کہا ہے کہ یہ بہتر ہے اور ہم عید سے پہلے صدقہ فطر تحصیل دار کے پاس بھیج دینے کو مستحب جانتے ہیں ۔نیز حدیث میں امام کے وصول زکات کے لیے عاملین کو بھیجنے کا بھی ذکر موجود ہے)
ایضاً(3/285)میں ہے۔
"وفيه بعث السعاة لا خذ الزكاة "(اس حدیث سے بھی تحصیل داروں کو زکات تحصیلنے کے لیے بھیجنا ثابت ہے)
"التلخیص الجبیر"(ص176)میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین تحصیل داروں کو زکات تحصیلنے کے لیے بھیجا کرتے تھے یہ مشہور بات ہے چنانچہ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدقہ تحصیلنے کے لیے بھیجا اور صحیحین میں ابی حمید کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زکات تحصیلنے کے لیے بھیجا اور امام احمد کی مسند میں ہے کہ آپ نے ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زکات کی تحصیل کرنے کے لیے بھیجا اور اسی میں ہے کہ آپ نے عقبہ بن عامر کو زکات کی تحصیل کرنے کے لیے بھیجا۔
اور اسی میں قرہ بن دعموص سے روایت کی ہے کہ آپ ضحاک بن قیس کو زکات کی تحصیل کرنے کے لیے بھیجا اور حاکم کی مستدرک میں ہے کہ انھوں نے قیس بن سعد کو زکات کی تحصیل کرنے کے لیے بھیجا اور اسی میں عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زکات والوں کے پاس بھیجا اور ولید بن عقبہ کو بنی مصطلق کے پاس زکات تحصیلنے کے لیے بھیجا اور بیہقی نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی ہے کہ ابو بکرو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحصیل دار کو زکات کے تحصیلنے کے لیے بھیجا کرتے تھےاس کو شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ابراہیم بن سعد سے انھوں نے زہری سے روایت کی ہے اور اس قدر زیادہ کہا ہے کہ اس کی تحصیل میں کسی سال دیر نہیں کرتے تھے اور شافعی نے قدیم قول میں کہا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے عام الرماد میں زکات کے لیے تحصیل دار بھیجنا اٹھا رکھا تو پھر دوسرے سال تحصیل دار بھیج کر دونوں سال کی زکات وصول کرائی اور ابن سعد کی طبقات میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ تحصیلنے والے کو عرب کی طرف ہجرت کے نویں سال محرم کے شروع مہینے میں بھیجا اور یہ امام واقدی کے مغازی میں ان کی اسناد سے مفصل مذکورہے)
امام شوکانی "السیل الجرار" (2/80)میں لکھتے ہیں ۔
(زکات تحصیلنے کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شک و شبہ حاصل تھا اور آپ تحصیل دار زکات تحصیلنے کے لیے بھیجا کرتے تھے اور جن پر زکات فرض ہوتی ہے ان کو حکم فرماتے تھے کہ تحصیل داروں کو دو اور ان کو راضی رکھو اور ان کی سختی کو برادشت کرو اور ان کی اطاعت کرو اور زمانہ نبوت میں کبھی یہ بات نہیں کی گئی کہ کسی شخص نے یا کسی بستی والوں نے بغیر حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زکات خود بانٹی ہواور یہ ایسی بات ہے۔جس کا ایسا شخص انکار نہیں کرسکتا جس کو سیرت نبویہ اور سنت مطہرہ کی معرفت ہے اور بایں ہمہ اس کے ترک پر آدھا مال چھین لینے کی دھمکی و سزا بھی ہے مالک مال کو تحصیل داروں سے تھوڑا مال بھی چھپانے کی اجازت نہیں ہے باوجود یکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے تحصیل داروں کی زیادتی بھی بیان کی اور اگر لوگوں کو مال زکات بانٹنے کا خود اختیار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ضرور اس کی اجازت دیتے اور نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زکات میں سے اس کے تحصیل دار کا بھی ایک حصہ مقرر فرمایا ہے تو یہ کہنا زکات کے بانٹنے کا اختیار اس کے مالک کو ہے زکات کے مصرفوں میں سے ایک ایسی مصرف کو بیکارکر دینا ہے جس کی صراحت خود خدا نے قرآن مجیدمیں فرمادی ہے اور نیز بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زکات تحصیلنے کے لیے بھیجا تو انھوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس زکات نہیں دیتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل تو زکات دینا اس وجہ سے منظور کرتا ہے کہ وہ ایک غریب آدمی تھا اللہ و رسول نے اس کو مال دار کردیا اور خالد پر تو تم خوامخواہ زبردستی کرتے ہو اس نے تو اپنی ساری زرہیں اور کل اسباب فی سبیل اللہ وقف کردیا ۔ باقی عباس کی زکات تو وہ زکات اور اسی قدر اور بھی میرے ذمہ ہے پھر فرمایا : اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !تم کو خبر ہے کہ چچا باپ ہی کے مثل ہے اور یہ حدیث اس بات کی خاص دلیل ہے کہ زکات بانٹنے کا اختیار مالک مال کو نہیں ہے بلکہ مالک مال پر واجب ہے کہ زکات سردار یا اس کے نائب کے حوالے کردے اگر مالک مال کو اختیار ہوتا تو اس کو زکات کے مصرفوں میں خود تقسیم کرنے کا ضرور اختیار ہوتا اور اس کی قبولیت سردار کے پاس اور اس کے نائب کے حوالے کر دینے پر موقوف نہ ہوتی اور نہ سردار کویہ حق ہوتا کہ جو اپنی زکات سردار کے حوالے نہ کرے اس کو عتاب کرے کیوں کر ہو سکتا ہے جس نے اپنی زکات سردار یا ان کے نائب کو نہ دی اس نے خود زکات کے مصرفوں میں بانٹ دیا ہواور بھی امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے سیل الجرار میں فرمایا ہے۔
خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ بات ہر گز دلائل سے ثابت نہیں کہ مالک اپنی زکات خود بانٹ دیا کرتا ہو اور اس بیان سے وہ شبہ دور ہو گیا جلال الدین نے اسی بیان میں اس شرح میں لکھا ہے کیوں کہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو معارضہ کے قابل ہو اور یہ بھی سیل الجرار میں ہے کہ جب یہ بات ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوئی تو یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ جو دستورآپ کے زمانہ شریف میں تھا۔آپ کے بعد بھی وہی دستوراماموں کے بعد بھی رہاہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔جو بخاری و مسلم وغیر ہمامیں ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"قریب ہے کہ میرے بعد خرابیاں اور ایسے ایسے کام ہوں گے جن کو تم ناپسند کروگے۔"لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس وقت کے لیے آپ ہم لوگوں سے کیا فرماتے ہیں فرمایا :"سرداروں کاجو حق تم پر ہے اس کو ادا کیے جاؤ اور اپنا حق جو سردارپر ہے اس کو خدا سے مانگو۔"دوسری دلیل یہ ہے جو مسلم وغیرہ نے وائل بن حجر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ایک شخص آپ سے پوچھتا تھا کہ جب سردار لوگ ہمارا حق ادا نہ کریں اور اپنا حق ہم سے مانگیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟فرمایا : ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے رہو اس لیے کہ سرداروں پر جو تمھارا حق ہے اس کی جواب دہی ان کے ذمہ ہے اور اس مسئلے میں اور بھی حدیثیں ہیں جب تم نے یہ مسئلہ جان لیا تو یہ بھی جان لو کہ امام کو کل قسم کے صدقے حوالے کر دینے واجب ہیں ہاں اگر سردار مالک مال کو بانٹنے کی اجازت دے تو اس کو خود بانٹ دینا درست ہے۔
لیکن اسے یوں مقید کرنا کہ امام کا اس ملک میں امرونہی نافذ ہوتا ہو جس میں مال کا مالک رہتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ من جملہ اللہ کے ان اموال کے ہے جن کو ان کے مصارف میں صرف کیا جاتا ہے وہ مصارف جن میں بلاد و عباد کی طرف سے ادا کرنا بھی شامل ہے۔ جن اس علاقے میں امام کا حکم نہ چلتا ہوتو ہو اس سے عاجز ہوگا۔ لیکن جب اس کی ولایت صحیح ہواور قابل اعتماد مسلمانوں نے اس کی بیعت کر رکھی ہوتو اس کی اطاعت کرنا ہر اس شخص پر واجب ہوگی جسے اس کی دعوت پہنچی ہو۔ من جملہ اطاعت کے اس کی نصرت و تابید کرنا بھی ہے اور اس میں اس چیز کا اس طرف لوٹانا بھی شامل ہے جس کا اس نے حکم دیا ہے اس امام پر لازم ہے کہ وہ اس علاقے کے لوگوں کی حمایت پر قائم ہو اور ان کے دشمنوں کو مقدور بھر ان سے دور کرے پھر وہ اس بات میں عاجز شمار نہ ہوگا کہ وہ اس علاقے کے اغنیا سے زکات وصول کرے اور وہاں کے فقرا میں صرف و خرچ کردے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔ رہا ان کا یہ قول :تو جس نے طلب کے بعد (زکات ) نکالی تو اس سے وہ کفایت نہ کرے گی اگر چہ وہ جاہل ہو۔ اس کے بعد اس کے لیے کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ ہم نے تمھارے سامنے اس کی وضاحت کردی ہے کہ ان دلائل کے ساتھ اس کا معاملہ امام کے سپرد ہے بلکہ جس شخص نے اس (امام ) کی اجازت کے بغیر اس کے غیر کو ادا کی اس سے وہ کفایت نہ کرے گی اکثر آئمہ کی طرف سے یہ بات تو معلوم ہے کہ اہل علم و صلاح کا لوگوں کے اپنی زکات کو اس کے مصارف میں صرف کرنے کے عمل کو ان کے سپرد کرنا امام کی طرف سے اجازت ہی کے حکم میں ہے۔ یہ مثل ان کی عادت کے ہو جائے گا اور یہ ان کے لیےاجازت ہی کے مرتبے میں ہے اگر چہ صراحتاًاجازت واقع نہ ہوئی ہو)
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1331)صحیح مسلم رقم الحدیث (1733)مشکاۃ المصابیح (399/1)
[2] ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد زکاۃ کو ذکر فرمایا اور ایسے ہی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اکثر جگہ (أَقِيمُوا الصَّلاةَ)کے بعد (وَآتُوا الزَّكَاةَ)فرمایا ہے اس میں ایک نکتہ اور بھید ہے یعنی جیسا کہ نماز فرض اکیلے اکیلے پڑھنا درست نہیں ویسا ہی زکاۃ کو اکیلے اکیلے اپنے طور پر ادا کرنا درست نہیں جیسا کہ نماز فرض جماعت کے ساتھ ایک امام کے پیچھے ادا کرنا چاہیے ویسا ہی زکات کو امام کے حوالے کرنا چاہیے خود بانٹنا درست نہیں ابو الحسنات عفی عنہ۔
[3] فتح الباری(360/3)
[4] ۔فتح الباری(376/3)