مردے کے واسطے ختم قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے یا نہیں؟
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ قرآءت قرآن کا ثواب مردے کو پہنچتا ہے یانہیں ؟علمائے حنفیہ کےنزدیک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور بعض اصحاب شافعی کے نزدیک پہنچتا ہے اور اکثر علمائے شافعیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا ہےامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے کہ نہیں پہنچتا ہے پس جن لوگوں کے نزدیک پہنچتا ہے ان کے نزدیک مردے کے واسطے ختم قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے اور جن کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے ان کے نزدیک نہیں جائز ہے شرح کنز میں ہے۔
"ان الانسان ان يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان او صوما او حجا اوصدقة او قراءة قرأن او غير ذلك من جميع انواع البر ويصل ذلك الي الميت وينفعه عند اهل السنة"[1](بلاشبہ انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب اپنے غیر کو بخش دے خواہ وہ عمل نماز ہو یا روزہ حج ہو یا صدقہ قرآءت قرآن ہو یا اس کے علاوہ تمام قسم نیکیاں بہر حال اہل سنت کے نزدیک اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اسے اس کا فائدہ ہوتا ہے)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
"واما قراءت القرأن فالمشهور من مذهب الشافعي انه لا يصل ث ثوابها الي الميت وقال بعض اصحابه يصل الي الميت ثواب جميع العبادات من الصلاة والصوم والقراءة وغير ذلك"[2](جہاں تک قرآءت کا تعلق ہے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ میت کو اس کا ثواب نہیں پہنچتا ان کے بعض اصحاب کا کہنا ہے کہ نماز روزے قراءت قرآن وغیرہ تمام عبادات کا ثواب میت کو پہنچتا ہے) اور اذکار میں لکھتے ہیں۔
"وذهب احمد بن حنبل وجماعة من العلماء وجماعة من اصحاب الشافعي الي انه يصل" والله اعلم بالصواب حرره محمد عفي عنه"[3](امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ علماء کی ایک جماعت اور اصحاب شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس قرآءت قرآن) کا ثواب (میت کو) پہنچتا ہے)سید محمد نذیرحسین۔
ھوالموفق :متاخرین علمائے اہل حدیث سے علامہ محمد بن اسماعیل امیر رحمۃ اللہ علیہ نے سبل السلام میں مسلک حنفیہ کو راجح دلیلاً بتایا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ قرآءت قرآن اور تمام عبادات بدینہ کا ثواب میت کو پہنچنا ازروئے دلیل کے زیادہ قوی ہے علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی "نیل الاوطار"میں اسی کو حق کہا ہے مگر اولاد کے ساتھ خاص کیا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ اولاد اپنے والدین کے لیے قرآءت قرآن یا جس عبادت بدنی کا ثواب پہنچانا چاہے تو جائز ہے۔کیونکہ اولاد کا تمام عمل خیر مالی ہو خواہ بدنی اور بدنی میں قرآءت قرآن ہو یا نماز روزہ یا کچھ اور سب والدین کو پہنچتا ہے ان دونوں علامہ کی عبارتوں کو مع ترجمہ یہاں نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
سبل السلام شرح بلوغ المرام (1/206)میں ہے۔
"یعنی یہ زیارت قبر کی دعائیں اور مثل ان کے اور دعا ئیں میت کو نافع ہیں بلا اختلاف اور میت کے لیے قرآن پڑھنا سو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور علماء کی ایک جماعت کایہ مذہب ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے علمائے اہل سنت سے ایک جماعت کا اور حنفیہ کایہ مذہب ہے کہ انسان کو جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب غیر کو بخشے خواہ نماز ہویا روزہ یا صدقہ یا حج یا قرآءت قرآن یا کوئی ذکر یا کسی قسم کی کوئی اور عبادت اور یہی قول دلیل کی روسے زیادہ راجح ہے دارقطنی نے روایت کیا ہے کہ ایک مرد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کیونکر نیکی و احسان کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: وہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے نماز پڑھے اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھے ۔[4]ابو داؤد میں معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے مردوں پر سورہ یٰسین پڑھو اور یہ حکم میت کو بھی شامل ہے بلکہ حقیقتاً میت ہی کے لیے ہے اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بھیڑاپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک اپنی امت کی طرف سے اور اس میں بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی کو غیر کاعمل نفع دیتا ہے اور ہم نے حواشی ضوء النہار میں اس مسئلہ پر مبسوط کلام کیاہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی مذہب قوی ہے۔"
حاصل اور خلاصہ ترجمہ اس عبارت کا بقدر ضرورت یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ آیت:
وان للانسان الا ما سعي اپنے عموم پر نہیں ہے اور اس کے عموم سے اولاد کا صدقہ خارج ہے یعنی اولاد اپنے مرے ہوئے والدین کے لیے جو صدقہ کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور غیر اولاد کا حج بھی خارج ہے اس واسطے کہ خثیمہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد جو اپنے والدین کے لیے حج کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور شبرمہ کے بھائی کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کا ثواب میت کو غیر اولاد کی طرف سے بھی پہنچتا ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے غلام آزاد کرے تو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے جیسا کہ بخاری میں سعد کی حدیث سے ثابت ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے نماز پڑھے روزہ رکھے سو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے اس واسطے کہ دارقطنی میں ہے کہ ایک مرد نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ تھے ان کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی و احسان کرتا تھا پس ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیونکر نیکی کروں؟آپ نے فرمایا: نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی روزہ رکھ اور صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں مر گئی اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بتا اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا اور اس کی طرف سے تو ادا کرتی تو ادا ہوجاتا یا نہیں ؟اس نے کہا ہاں ادا ہو جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ میری ماں کے ذمے ایک مہینے کے روزے ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ اور غیر اولاد کے روزہ کا بھی ثواب میت کو پہنچتا ہے اس واسطے کہ حدیث متفق علیہ میں آیا ہے کہ جو شخص مرجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کاولی روزے رکھے اور سورت یٰسین کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی اس واسطے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اپنے مردوں پر سورت یٰسین پڑھو اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد دعا کرے یا کوئی اور ،اور جوکار خیر اولاد اپنے والدین کے لیے کرے سب کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی سے ہے۔
جب علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن اسماعیل امیر کی تحقیق ایصال ثواب قرآءت قرآن و عبادات بدینہ کے متعلق سن چکے تو اب آخر میں علامہ ابن الخوی کی تحقیق بھی سن لینا خالی از فائدہ نہیں ۔آپ شرح المنہاج میں فرماتے ہیں۔
"یعنی ہمارے نزدیک مشہور قول پر قرآءت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے قرآءت قرآن کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے (یعنی قرآن پڑھ کر دعا کرے اور یہ سوال کرے کہ یا اللہ اس قرآءت کا ثواب فلاں میت کو تو پہنچادے) اور دعاکے قبول ہونے پر امر موقوف رہے گا (یعنی اگر دعا اس کی قبول ہوئی تو قرآءت کا ثواب میت کو پہنچےگا اور اگر دعا قبول نہ ہوئی تو نہیں پہنچے گا) اور اس طرح پر قرآءت کے ثواب پہنچنے کا جزم کرنا لائق ہے اس واسطے کہ یہ دعا ہے پس جبکہ میت کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا جو داعی کے اختیار میں ہے اوریہ بات ظاہر ہے کہ دعا کا نفع میت کو بالا تفاق پہنچتا ہے اور زندہ کو بھی پہنچتا ہے نزدیک ہو خواہ دور ہو اور اس بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرے ۔"واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
[1] ۔البحر الرائق (63/3)تبین الحقائق (83/6)
[2] ۔شرح صحیح مسلم للنووی (90/1)
[3] ۔الاذکار للنووی (ص228)
[4] ۔دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ رقم الحدیث (597)