سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(167) ایصال ثواب کا طریقہ اور میت کے کپڑوں کو استعمال میں لانا

  • 22932
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 963

سوال

(167) ایصال ثواب کا طریقہ اور میت کے کپڑوں کو استعمال میں لانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 1۔اہل حدیث کے یہاں موتی کو ثواب پہنچانے کا ازروئے حدیث کے کوئی طریقہ مقرر ہے یا نہیں؟

2۔موتی کے مثلاً کپڑے اس کے اعزا اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔مقرر ہے احادیث ذیل ملاحظہ ہوں۔

عن عبد الله بن عمرو ان العاص بن وائل نذر في الجاهلية ان ينحر مائة بدنة وان هشام بن العاص نحر حصته خمسين وان عمرا سال النبي صلي الله عليه وسلم عن ذلك  فقال:((اما ابوك فلو اقر باتوحيد فصمت وتصدقت عنه نفعه ذلك[1](رواہ احمد)

(عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ (ان کے دادا) عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ نحر کرنے کی نذر مانی تھی ۔ چنانچہ ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دیے عمر و بن عاص رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے اس سلسلے میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بات کی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"اگر تیرا باپ توحید کا اقرارکر لیتا اور پھر تو اس کی طرف سے روزے رکھتا اور صدقہ کرتا تو اس کا فائدہ ہوتا۔"(مگر جب اس کی موت کفر پر ہوئی ہے تو اسے ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہ ہو گا)

"وعن أبي هريرة { أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم : إن أبي مات ولم يوص ، أفينفعه أن أتصدق عنه ؟ قال : نعم"

[2](رواہ احمد و مسلم والنسائی و ابن ماجہ)

(ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا کہ میرا والد فوت ہوگیا ہے اور اس نے وصیت نہیں کی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو فائدہ ہو گا؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :ہاں)

حديث عائشة رضي الله عنها : " أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم إن أمي افتلتت نفسها ، وأظنها لو تكلمت تصدقت ، فهل لها أجر إن تصدقت عنها ؟ قال : ( نَعَمْ ) " رواه البخاري (1388) ، ومسلم (1004)

[3](متفق علیہ)

(عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں آکر عرض کی میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر انھیں بات چیت کرنے کا موقع ملتا تووہ صدقہ کرتیں اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انھیں ثواب ملے گا؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :ہاں)

"ابن عباس :“ أن رجلا قال: يا رسول الله إن أمي توفيت أفينفعها إن تصدقت عنها؟ فقال: نعم ، قال: فإن لي مخرفا وإني أشهدك أني قد تصدقت به عنها"[4](رواہ البخاری والترمذی والنسائی و ابو داؤد )

(عبد اللہ بن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں عرض کی میری والدہ فوت ہوگئی ہے اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو فائدہ ہوگا؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"ہاں اس نے کہا کہ میرے پاس ایک باغ ہے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ ان کی طرف سے صدقہ کر دیا)

وعن الحسن عن سعد بن عبادة ان امه ماتت  فقال يارسول الله صلي الله عليه وسلم ان امي ماتت افاتصدق عنها؟قال:((نعم))قلت:فاي الصدقة افضل؟قال:(سقي الماء) قال:فتلك سقاية أل سعد بالمدينة[5](رواہ احمد والنسائی )

(حسن  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے وہ سعد بن عبادہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ فوت ہوگئی انھوں نے عرض کی۔ یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !میری ماں فوت ہوگئی کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں"میں نے پوچھا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :پانی پلانا ۔"راوی کہتے ہیں کہ اس بنا پر سعد  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے مدینہ میں سبیل قائم کر دی تھی (تاکہ مسافر وغیرہ کسی تنگی کے کے بغیر ہر وقت پانی پی سکیں)

موتی کے کپڑوں و دیگر اشیاکے مالک اس کے ورثا ہیں اس کے ورثا وہ کپڑے و نیز دیگر اشیا اپنے استعمال میں خود بھی لاسکتے ہیں اور اگر وہ کسی کو ہتاًو صدقتاًدے دیں تو بھی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ واللہ اعلم کتبہ: محمد عبد اللہ ۔


[1] ۔مسند احمد (18/2)السلسلۃ الصحیحہ رقم الحدیث (67)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1630)مسند احمد (371/2)سنن النسائی رقم الحدیث (3652)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(2716)

[3] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1322)صحیح مسلم رقم الحدیث (1004)

[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2617)سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2881)سنن الترمذی رقم الحدیث(669) سنن النسائی رقم الحدیث (3655)

[5] ۔مسند احمد (284/5)سنن النسائی رقم الحدیث (3666)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الجنائز ،صفحہ:330

محدث فتویٰ

تبصرے