سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(165) کیا عورت کی وفات کے بعد اس کا شوہر غیر محرم بن جاتا ہے؟

  • 22930
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1240

سوال

(165) کیا عورت کی وفات کے بعد اس کا شوہر غیر محرم بن جاتا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعد مرجانے عورت کے شوہر اس کا غیر محرم ہے یا نہیں اور اگر ہے تو جس صورت میں اس عورت کاکوئی محرم نہ ہویا ہو۔ اس صورت میں شوہر اس کے جنازہ کولے جاسکتا ہے یا نہیں اور قبر میں لٹا سکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شوہر عورت کا مرنے کے بعد کیا زندگی میں بھی غیر ذی محرم ہے اس واسطے کہ ذومحرم اس کو کہتے ہیں جس سے کبھی نکاح جائز نہ ہو اور شوہر تو وہی ہے جس کے نکاح میں عورت ہے۔ عورت کا جنازہ لے چلنے اور اس کے قبر میں لٹانے کے لیے ذومحرم کی تخصیص نہیں۔ہر شخص (عورت کو اس سے کسی قسم کا تعلق نسبی یا مہری ہویا نہ ہو) اس کا جنازہ لے کر چل سکتا ہے اور اس کو قبر میں لٹا سکتا ہے محرم اور ذی محرم کا فرق صرف حالت زندگی میں ہے مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صاحبزادی کلثوم  رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   کو قبر میں حضرت ابو طلحہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے رکھا تھا جو انصاری تھے اور ان سے آپ کو نسبی یا مہری تعلق کچھ بھی نہیں تھا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  وہیں موجود تھے۔

عن انس قال:شهدنا بنت رسول الله صلي الله عليه وسلم تدفن وهو جالس علي ا لقبر فرايت عينه تدمعان فقال:(( هل منكم من احد لم يقارف الليلة؟)) فقال ابوطلحة :انا:قال:((فانزل في قبرها)) فنزل في قبرها[1](رواہ البخاری ) 

(انس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی کی تدفین کے وقت حاضر ہوئے اس حال میں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں کو آنسو بہاتے ہوئے دیکھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا تم میں سے کوئی شخص ہے جس نے اس رات (اپنی بیوی سے) مقاربت نہ کی ہو؟"ابو طلحہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ میں ہوں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"اس کی قبر میں اترو۔ "تو وہ ان کی قبر میں اترے)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1277)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الجنائز ،صفحہ:329

محدث فتویٰ

تبصرے