سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(163) عصر کے بعد اور مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا

  • 22928
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1944

سوال

(163) عصر کے بعد اور مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔جنازہ کی نماز بعد نماز عصر  پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں؟

2۔مسجد میں اندر جنازہ لے جانا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔جنازہ کی نماز بعد نماز عصر پڑھی جاسکتی ہےحدیثیں جو نماز عصر کے بعد  دوسری نمازوں کی کراہت پر دلالت کر تی ہیں،وہ مخصوص منہ البعض ہیں اور حکم کراہت خاص ہے ان نمازوں کے ساتھ جوبلا سبب پڑھی جائیں۔خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےسنت ظہر کی قضا بعد نماز عصر پڑھی ہے۔

"عن أمِّ سلمةَ رضي الله عنْها لَمَّا رأتِ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصلِّي بعدَ العصرِ أرسلتْ إليه الجاريةَ، وقالتْ: قُومي بجنبِه قولي له: تقولُ لكَ أمُّ سَلمةَ: يا رسولَ الله، سمعتُك تَنهى عن هاتينِ، وأراكَ تُصلِّيهما! فإنْ أشارَ بيدِه فاستأخري عنْه، ففعلتِ الجاريةُ، فأشار بيدِه فاستأخرَتْ عنه، فلمَّا انصرَفَ، قال: (يا بِنتَ أبي أُميَّة، سألتِ عن الركعتينِ بعدَ العصرِ، وإنَّه أتاني ناسٌ من عبد القَيسِ فشَغَلوني عن الركعتينِ اللَّتين بعدَ الظهر، فهي هاتانِ)[1]

(متفق علیہ)

ام سلمہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان(عصر کے بعد کی دو رکعتوں ) سے منع فرماتے تھے۔اے دختر بنی امیہ ! تو نے عصر کے بعد کی ان دو ر کعتوں کے متعلق پوچھا ہے تو بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ آئے ور انھوں نے مجھے ظہر کے بعد کی رکعتوں سے مشغول کردیا ۔تو یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔

اس کے سوا جن حدیثوں میں نماز  عصر کے بعد نماز سے منع کیا گیا ہے ،انھیں میں نماز صبح کے بعد نماز سے بھی منع کیا گیا ہے۔حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد خیف میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے اور دو شخص بیٹھے ہوئے تھے۔نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟انھوں نے عرض کیا کہ ہم پڑھ چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ایسا نہ کیاکرو۔اگر تم نماز پڑھ چکے ہو اور ایسی مسجد میں پہنچو،جہاں جماعت ہوتی ہوتو پھر جماعت میں شریک ہوجایا کرو،یہ نفل ہوجائے گی۔

عن يزيد بن الأسود رضي الله عنه قال : ( شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْحَرَفَ إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَى الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ ، فَقَالَ : ( عَلَيَّ بِهِمَا فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا ، فَقَالَ : مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا ) ، فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ : إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا ، قَالَ : ( فَلَا تَفْعَلَا ، إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ، ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ ) رواه الترمذي (219) ، وصححه الشيخ الألباني رحمه الله في " سنن الترمذي " .

یزید بن الاسود بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم کے ساتھ حج میں شریک ہوا تو میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مسجد خیف میں صبح کی نماز پڑھی۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز مکمل کرکے لوگوں کی طرف رخ کیا تو دیکھا کہ دو آدمی لوگوں کے  پیچھے موجود ہیں اور انھوں نے(جماعت کے ساتھ) نماز نہیں پڑھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں بلوایا۔انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے پیش کیا گیا تو ان کی یہ حالت تھی کہ ان کے  پٹھے کانپ رہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا:"تمھیں کیا رکاوٹ تھی کہ تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟"انھوں نے جواب دیا:ہم اپنی منزل میں نماز پڑھ آئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:ایسے نہ کیا کرو۔جب تم اپنی منزل میں نماز پڑھ چکے ہو،پھر تم مسجد میں آؤ،جہاں جماعت کھڑی ہو تو ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھو،یہ تمہارے لیے نفل ہوگی۔

نماز طواف کی بھی ان وقتوں میں اجازت دی ہے۔[2](نیل الاوطار:2/342)

ان حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ ان اوقات میں وہی نماز منہی عنہ ہے،جس کے لیے کوئی سبب دوسرا سوائے تطوع کے نہ پایا جائے اورنماز جنازہ ایک تو فرض کفایہ ہے ،نفل نہیں۔دوسرے جنازہ کا حاضر ہوجانا خود سبب ہے،بلکہ اس کی تجہیز وتکفین وغیرہ سے جلد فراغت کا  حکم ہے۔

"عن علي رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يا علي ! ثلاث لا تؤخرها الصلاة إذا أتت والجنازة إذا حضرت"[3]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اے علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ !تین کاموں میں تاخیر مت کرو:نماز جب اس کا وقت ہوجائے اور جنازہ جب تیار ہوجائے۔۔۔الخ

پس نماز عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

2۔مسجد میں جنازہ لے جانا جائز ہے۔جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے وفات کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   نے کہا کہ ان کا  جنازہ مسجد میں لاؤ۔تاکہ ہم بھی ان کی نماز پڑھیں،اس پر لوگوں نے انکار کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   نے فرمایا کہ  رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیضاء کے دو بیٹے سہیل اور ان کے بھائی کا جنازہ مسجد میں ہی پڑھا تھا۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنهَا أنَّهَا أمَرَتْ أنْ يَمُرَّ بِجَنَازَةِ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ فِي المَسْجِدِ، فَتُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَأنْكَرَ النَّاسُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: مَا أسْرَعَ مَا نَسِيَ النَّاسُ! مَا صَلَّى رَسُولُ عَلَى سُهَيْلِ بْنِ البَيْضَاءِ إِلا فِي المَسْجِدِ. أخرجه مسلم.[4]

حضرت عائشہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں : کہ جب سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  فوت ہوگئے تو انھوں نےکہا کہ ان(کی میت) کو مسجد میں لے آؤ،تاکہ میں ان کی نماز جنازہ ادا کرسکوں،مگر لوگوں نے ان کے اس مطالبے کا انکار کیا۔انھوں نے فرمایا:اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی تھی۔

ابو داود کی حدیث:

"من صعي علي جنازة في المسجد فلاشئي له"[5]

جس نے مسجد میں کسی میت کی نماز جنازہ ادا کی تو اس کے لیے کچھ نہیں۔سے اس کی کراہت پر بھی استدلال کیا گیا ہے،مگر اس کے راویوں میں صالح مولی التوامہ ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ حدیث قابل استدلال نہیں۔علاوہ بریں ابو داود ہی کے بعض معتبر نسخوں میں بجائے (لاشئي له) کے(لاشئي عليه) اس پر کوئی گناہ نہیں پایا  گیا ہے۔(نیل الاوطار :3/307)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1176)

[2] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(1894)

[3] ۔سنن  ترمذی رقم الحدیث(171)

[4] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(973)

[5] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(3191)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الجنائز ،صفحہ:326

محدث فتویٰ

تبصرے