سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) نماز جنازہ میں قراءت کا مسنون طریقہ

  • 22925
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2868

سوال

(160) نماز جنازہ میں قراءت کا مسنون طریقہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ضم سورہ پڑھنا جائز ہے یا نہ؟برتقدیر جواز سراً وخفیتاً ہے یا جہراً وعلانیتاً؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمدلله الذي جعل في الدين يسرا وسعة وهدي نبيه سبل السلام واطوار مختلفة والصلاة والسلام علي نبي التوبة والرحمة وعلي أله وأصحابه الكرام البررة اما بعد:

بخاری وابو داود وترمذی میں سورہ فی صلاۃ الجنازہ پڑھنے کے بارے میں باب منعقد کرکے باختلاف الفاظ اس  حدیث کو  ذکر کیا گیاہے:

"خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة"[1]

یعنی ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے ایک جنازہ پر سورہ فاتحہ پڑھی اور کہا کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ قراءت فاتحہ سنت سے ہے۔نسائی نے سورہ کو بھی زیادہ کیا ہے۔[2]

اور اصول میں عند الاکثر کالاجماع یہ بات قرار پاچکی ہے کہ صحابی کا من سنۃ کذا کہنا حدیث مرفوع ہوا کرتا ہے۔[3]

ابن ماجہ نے ام شریک رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   سے روایت کی ہے:

قالت: «أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم أَنْ نَقْرَأَ عَلَى الْجِنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»[4]

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم جو جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم کیا ہے۔

"وفي اسناده ضعف يسير كما قال الحافظ وهو ينجبر بضمه الي الاول"[5]

اس کی سند میں  تھوڑا سا ضعف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے،لیکن اس کو پہلی روایت کے ساتھ ملانے سے وہ ضعف ختم ہوجاتا ہے۔

"وعن  فضالة بن امية قال:قرا ا لذي صلي علي ابي بكر وعمر بفاتحة الكتاب"[6]

(رواہ البخاری فی تاریخہ)

یعنی فضالہ بن ابی امیہ سے روایت ہے اس نے کہا کہ جس شخص نے حضرت ابو بکر اور حضر  ت عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  پر جنازہ کی نماز پڑھی تھی۔اس نے سورہ فاتحہ کو پڑھا تھا۔اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے۔

پس خلاصہ یہ ہوا کہ صلاۃ جنازہ میں سورت فاتحہ بلاتردد پڑھ سکتے ہیں،کیونکہ حدیث صحیح سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور حدیث صحیح پرعمل کرنے میں کسی کو کلام نہیں ہے۔بلکہ سب متفق ہیں،چنانچہ شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی مقدمہ مشکوۃ میں لکھتے ہیں:

"الاحتجاج  في الاحكام بالخبر الصحيح مجمع عليه"

احکام میں  خبر صحیح کے ساتھ احتجاج کرنے پر اجماع ہے۔فقہائے حنفیہ نے بھی بار ادہ دعا سورہ  فاتحہ کا پڑھنا جنازہ کی نماز میں جائز لکھا ہے:

"فلو  قرا الفاتحة بنية الثناء جاز كذا في الاشباه"[7]

پس  اگر ثنا کی نیت سے وہ سورۃ الفاتحہ پڑھے تو جائز ہے۔"الاشباہ"میں ایسے ہی ہے۔مولوی عبدالحئی لکھنوی نے شرح وقایہ کے حاشیہ پرقراءت فی صلاۃ الجنازۃ کے متعلق لکھا ہے:

قوله:خلاف للشافعي فان عنده يقرا الفاتحة بعد التكبيرة الاولي وهو الاقوي دليلا وهو "الذي اختاره الشرنبلا لي من اصحابنا والف فيه رسالة "[8]

اس کا یہ قول کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا اس میں اختلاف ہے۔پس ان کے نزدیک وہ پہلی  تکبیر کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھے گا اور دلیل کے اعتبار سے یہی زیادہ قوی بات ہے ہمارے اصحاب میں سے الشر نبلالی نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے اور اس میں ایک رسالہ بھی تصنیف کیا ہے۔

شیخ عبدالرحیم صاحب دہلوی والد شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی بھی اس پر عمل  کرتے تھے۔شاہ ولی اللہ صاحب نے"حجۃ اللہ البالغہ" میں سورہ فاتحہ پڑھنے کو جنازہ کی نماز میں لکھا ہے اور کہاہے:"یہ خیر اور اجمع الادعیہ ہے اور حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں  اپنے عباد کو سکھلایا ہے۔[9]قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی مصنف مالا بدمنہ نے اپنے وصیت نامہ میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی وصیت کی ہے۔[10]غرض کہ جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ ضرور پڑھنا چاہیے۔اور سنن نسائی کی زیارت کی رو سے سورہ بھی ملا سکتے ہیں۔

"لامحيص عن المصير الي ذلك لانها زيادة خارجة من مخرج صحيح"

"السراج الوهاج من كثف مطالب صحيح مسلم بن الحجاج" میں ہے:

قال:الامام الرباني الشوكاني في السيل الجرار صلاة الجنازة صلاة من الصلاة التي قال فيها النبي صلي الله عليه وسلم  فيما صح عنه:(( لاصلاة الا بفاتحة الكتاب)) وهذا يكفي في كونها فرضا في صلاة الجنازة بل في كونها شرطا يستلزم عدمها عدم الصلاة فكيف وقد ثبت في الصحيح عنه صلي الله عليه وسلم انه كان يقرا في صلاة الجنازة فاتحة  الكتاب قال:وينبغي ان يعمد الي سورة قصيرة فيقراها نعم لايشتغل بغير الدعاء للميت بعد تكبيرة بما ورد وبما لم يرد  فهذا هو المقصود من صلاة الجنازة انتهي[11]

یعنی امام شوکانی عالم ربانی نے سیل جرار میں کہا ہے کہ نماز جنازہ ایک نماز ہے ان نمازوں میں سے جن کی شان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ حدیث  فرمائی ہے کہ بغیر فاتحہ پڑھنے کے کوئی نماز نہیں ہوتی پس یہ حدیث نماز جنازہ میں سورہ  فاتحہ کے فرض بلکہ اس کے شرط ہونے کے واسطے جو عدم فاتحہ سے عدم صلاۃ کو مستلزم ہو،کافی ہے کیونکر یہ بات نہ ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحیح حدیث میں ثابت ہوچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جنازہ کی نماز میں سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے امام شوکانی نے یہ بھی کہا ہے کہ سورت فاتحہ کے ساتھ کسی قدر اور قرآن مجید بھی بانداز یسیر ملا لیا کرے اور وہ بھی کوئی چھوٹی سی سورت پڑھ  لیا کرے،ہاں پھر تکبیر کے بعد میت کے حق  میں دعائے ماثور پڑھنے کے سوا کوئی شغل نہ کرے،کیونکہ نماز جنازہ سے بھی دعا ہی تو مقصود ہے۔انتھی

"هذالذي قاله الامام الشوكاني هو الحق الحقيق الذي بلغ غاية التحقيق"

اب رہی یہ بات کہ سورت فاتحہ وسورۃ سراچاہیے یاجہراً؟سو اس کی نسبت لکھنا اُس جملہ کا جو غطیف بن حارث سائل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قراءت فی صلاۃ اللیل کے جہر یا خفت سے سوال کے دوبارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب""ربما جهر به وربما خفت"میں کہا تھا۔خالی از مناسبت نہیں ہے ۔وہ جملہ یہ ہے:

"الحمد الله الذي جعل في الامر سعة"[12]

غرض کہ سرا وجہراً ہر دودرجہ سے پڑھ سکتے ہیں،اس سے کوئی مانع شرعی وعقلی موجود نہیں ہےبلکہ دونوں باتیں احادیث سے ثابت ہیں۔سراً پڑھنے کے واسطے یہ حدیث جو بروایت ثقات نسائی میں ہے،دلیل ہے:

عن أَبي أُمامةَ رضي الله عنه أنَّه قال: (السُّنَّة في الصَّلاةِ على الجنازةِ أن يَقرأَ في التكبيرةِ الأولى بأمِّ القرآنِ مُخافتةً، ثم يُكبِّر ثلاثًا، والتسليم عندَ الآخِرة)[13]

یعنی میت پر نماز پڑھنے میں سنت یوں ہے کہ  تکبیر اولیٰ کے ساتھ بعد سورہ فاتحہ کو آہستہ سے پڑھا جائے۔

اور جہراً پڑھنے کے واسطے بھی بروایت ثقات مروی ہے:

عن طلحة بن عبد الله بن عوف قال: [ صليت خلف ابن عباس رضي الله عنه على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وقال: لتعلموا أنها سنة "[14]

دوسرے طریق میں ہے:

 ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ، بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ فَسَأَلْتُهُ فَقُلْتُ تَقْرَأُ قَالَ نَعَمْ إِنَّهُ حَقٌّ وَسُنَّةٌ .[15]

یعنی طلحہ بن عبداللہ بن عوف سے مروی ہے،کہا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے پیچھے میت پر جنازہ کی نماز پڑھی،انھوں نے سورہ فاتحہ اور کسی سورۃ کو ایسا جہراً پڑھا کہ ہم نے سنا،فارغ ہونے کے بعد میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر قراءت جہراً پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا،جواب دیا کہ یہ سنت وحق ہے۔

جہر بالقراءت کی یہ حدیث ابو داود کی بھی موید ہے"

. وعن واثِلة بنِ الأسقعِ رضيَ اللَّه عنه قال : صَلَّى بِنَا رسولُ اللَّهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم عَلى رجُلٍ مِنَ المُسْلِمينَ ، فسمعته يقولُ : « اللَّهُمَّ إنَّ فُلانَ ابْنَ فُلان في ذِمَّتِكَ"[16]

واثلہ بن الاسقع بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں مسلمانوں میں سے ایک آدمی کی نماز جنازہ کی امامت کرائی۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ پڑھتے ہوئے سنا:اےاللہ!فلاں بن فلاں تیرے ذمے میں ہے۔۔۔

عون الباری شرح  تجرید بخاری میں ہے:

قد ورد الجهر فأخرج البخاري وغيره عن ابن عباس أنه صلى على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وقال لتعلموا أنه من السنة فمعلوم أن قراءته هذه لا تكون إلا جهرا حتى يعلم ذلك من صلى معه وزاد النسائي ["1988"]، بعد فاتحة الكتاب سورة وذكر أنه جهر ولفظه هكذا فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر ويؤيد ذلك ما ثبت في صحيح مسلم ["963"]، وغيره [النسائي "4/73"، ابن ماجة "1500" أحمد "6/23، 28"، الترمذي "1025"]، من حديث عوف بن مالك قال صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على جنازة فحفظنا من دعائه الحديث فإن هذا يدل على أنه جهر بالدعاء فلا وجه لجعل المخافتة مندوبة وإن وردت في حديث أبي أمامة بن سهل أنه أخبره رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أن السنة في الصلاة على الجنازة أن يكبر الإمام ثم يقرأ بفاتحة الكتاب بعد التكبيرة سرا في نفسه ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم ويخلص الدعاء للجنازة في التكبيرات ولا يقرأ في شيء منهن ثم يسلم سرا في نفسه أخرجه الشافعي في مسنده وفي إسناده اضطراب وقواه البيهقي في المعرفة وأخرج عن الزهري معناه وأخرج نحوه الحاكم من وجه آخر وأخرجه أيضا النسائي وعبد الرزاق قال ابن حجر في الفتح وإسناده صحيح وليس فيه قوله بعد التكبيرة ولا قوله ثم يسلم سرا في نفسه.[17]

یعنی امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  نے سیل جرار میں کہا ہے کہ سورہ فاتحہ کا جہراً پڑھنا حدیث میں وارد ہے۔بخاری وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کسی جنازہ پر سورہ فاتحہ کو پڑھ کر فرمایا تھا کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ یہ سنت ہے اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی یہ قراءت جہراً ہی تھی،تب ہی تو ان کے ساتھ والے نمازیوں نے بھی اس کو سن لیا تھا اور نسائی نے سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ کو بھی زیادہ کرکے ذکر کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے قراءت جہراً پڑھی تھی اور اس کا لفظ اس طور پر ہے کہ فاتحہ اور سورۃ کو پڑھا اور جہر کیا اور اس جہر پڑھنے کی وہ حدیث بھی موئید ہے۔جو صحیح مسلم وغیرہ  میں عوف بن مالک سے ثابت ہے۔عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک میت پر جنازہ کی نماز پڑھی تھی تو میں نے آپ کی دعا یاد کرلی اور وہ د عا حدیث میں مذکور ہے،کیونکہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کو جہراً پڑھا تھا،پس مخالفت کے مندوب ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔اگرچہ ابو امامہ بن سہل کی حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ایک صحابی نے اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کو خبر دی ہے کہ جنازہ کی نماز میں سنت یوں ہے کہ امام تکبیر کے بعد آہستہ سے سورہ  فاتحہ پڑھے،پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر در ود پڑھے اور باقی تکبیرات میں میت کے و اسطے دعا کرے اور کسی تکبیر میں قراءت نہ کرے،پھر آہستہ سے سلام کہے۔اس  حدیث کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مسند میں روایت کیاہے اور اس کی سند میں اضطراب ہے اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کو مضبوط کہا ہے اور زہری سے اس کا معنی روایت کیا  ہے اور حاکم  رحمۃ اللہ علیہ  نے دوسر طریق سے اس کے مانند روایت کیا ہے اور نسائی اور عبدالرزاق نے بھی روایت کیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فتح الباری میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے اور اس میں قول اس کا"بعد التکبیرۃ الاولیٰ"اور"سراً فی نفسہ" نہیں ہے۔

نیل الاوطار میں نسائی کے لفظ"جہر"کے تحت میں لکھا ہے:

"فيه دليل علي الجهر في قراءة الصلاة في الجنازة انتهي "[18]

اس میں نماز جنازہ میں جہراً قراءت کرنے کی دلیل ہے۔

ظاہر حدیث  فضالہ بن ابی امیہ سے بھی جہراً قراءت فاتحہ ثابت ہے۔صحیح مسلم کی حدیث"

عن أبي عبدِ الرحمنِ عوفِ بن مالكٍ رضي اللَّه عنه قال : صلَّى رسول اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم عَلى جَنَازَةٍ ، فَحَفِظْتُ مِنْ دُعائِهِ وَهُو يَقُولُ : « اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيّراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار » حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أنَا ذلكَ المَيِّتَ . رواه مسلم

کے تحت میں السراج الوھاج میں لکھا ہے:

الحديث فيه دلالة واضحه علي الجهر بالدعاء في صلوة الجنازة ولا ما نع منه شرعا وعقلا ولا داعي اليه فيكون الجخر والا سرار فيها سواء كباقي الصلوات الخ.[19]

یعنی اس حدیث میں کھلی دلالت ہے نماز جنازہ میں دعا کے جہرپڑھنے پر اور اس سے کوئی مانع شرعی وعقلی بھی نہیں ہے اور نہ کوئی امر اس کی طرف داعی ہے پر جہر اور اسرار اس میں دونوں برابر ہیں دوسری نمازوں کی طرح۔"

خلاصہ کلام وحاصل امر یہ کہ جنازہ کی نماز میں سورہ  فاتحہ وسورۃ دیگر بلکہ دعا کو بھی جہراً پڑھ سکتے ہیں۔احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے جہراً اورسراً دونوں مساوات کا درجہ رکھتے ہیں۔

الجواب صحیح: فی الواقع جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا اور بھی اس ک ساتھ ضم سورہ کرنا احادیث معتبرہ سے ثابت ہے اور جہراً خواہ سراً جس طرح چاہیں پڑھیں،اختیار ہے،مجیب للہ درہ نے ان سب امور کو اچھی طرح کافی دلائل سے ثابت کردیا ہے۔جس پر مزید کی حاجت نہیں۔واللہ اعلم بالصواب۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1270) سن ابی داود  رقم الحدیث(3198) سنن الترمذی  رقم الحدیث(1027)

[2] ۔سنن النسائی رقم الحدیث(1987)

[3] ۔فتح المغیث(1/119) وغیرہ۔

[4] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1496) اس کی سند میں حماد بن جعفر العبدی ضعیف ہے۔

[5] ۔التلخیص الجبیر (2/119)

[6] ۔التاریخ الکبیر (7/125) الجرح والتعدیل(7/77)

[7] ۔فتح القدیر(3/378) رد المختار(1/512)

[8] ۔علامہ حسن شرنبلانی(1069ھ) نے نماز جنازہ میں قراءت کے جواز پر  النظم المستطاب لحكم القراءة  في صلاة الجنازة بأم الكتاب کے نام سے رسالہ  تحریر کیا ہے۔

[9] ۔حجۃ اللہ البالغہ(ص:492)

[10] ۔وصیت نامہ(ص:152 ملحق مالا بد منہ) مکتبہ  رحمانیہ لاہور۔

[11] ۔السراج الوھاج للنواب صدیق حسن خان(3/334)

[12] ۔سنن ابی داود  رقم الحدیث(226) مسند احمد(6/47)

[13] ۔سنن نسائی رقم الحدیث (1989)

[14] ۔ سنن نسائی رقم الحدیث (1987)

[15] ۔ سنن نسائی رقم الحدیث (1988)

[16] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(3202)

[17] ۔عون الباری لحل ادلۃ البخاری لنواب صدیق حسن خان(3/628)

[18] ۔نیل الاوطار (4/102)

[19] ۔السراج الوھاج کشف صحیح مسلم بن الحجاج 3/306)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الجنائز ،صفحہ:319

محدث فتویٰ

تبصرے