سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157) عقیقہ میں گائے وشتر ذبح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

  • 22922
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 929

سوال

(157) عقیقہ میں گائے وشتر ذبح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عقیقہ میں  گائے وشتر ذبح کرنا جائز ہے یا نہیں؟بقول جمہور جائز ہے تو ایک گائے اور ایک شتر سات عقیقہ کے لیے کافی یا نہیں؟بحوالہ کتاب وسنت تحریر فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ اولیٰ"عقیقہ میں گائے وشتر ذبح کرنا جائز ہے یا نہیں؟"کے متعلق کوئی آیت یا حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ہاں انس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی یہ حدیث:

"يُعَقُّ عنهُ من الإبلِ والبقرِ والغنمِ"

اس(بچے) کی طرف سے اونٹ،گائے اور بکری کے ساتھ عقیقہ کیا جائے۔

جس سے عقیقہ میں گائے وشتر ذبح کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے حافظ ابو القاسم طبرانی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب "معجم صغیر" (ص:45 مطبوعہ دہلی) میں موجود ہے مگر حدیث مذکور بوجوہ ذیل صحیح نہیں ہے۔حدیث مذکور کی پوری اسناد،جو معجم صغیر میں مذکور ہے یہ ہے:

"ہمیں ابراہیم بن احمد بن مروان الواسطی نے بیان کیا،انھوں نے کہا کہ ہمیں عبدالملک بن معروف الخیاط الواسطی نے بیان کیا،انھوں نے کہا ہمیں مسعدہ بن الیسع نے بیان کیا،انھوں نے حریث بن السائب سے روایت کیا،انھوں نے حسن سے  روایت کیا اور انھوں نے انس بن مالک  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے۔"

حدیث مذکور کے عدم صحت کی وجہ اول:اس حدیث کی اسناد میں راوی"ابراہیم بن مروان واسطی" ہیں،ان کی نسبت میزان الاعتدال میں ہے:

"روي الحاكم عن الدارقطني  قال:ليس بالقوي"[1]

یعنی حاکم نے دارقطنی سے روایت کی ہے کہ یہ راوی قوی نہیں ہے اور صحت حدیث کے لیے اس کے کل راویوں کا قوی(عادل وضابط) ہونا ضروری ہے پس جب اس  حدیث کا راوی قوی نہیں تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

وجہ دوم:

اس حدیث کی اسناد میں راوی "مسعدہ بن الیسع" ہیں،ان کی نسبت میزان الاعتدال میں ہے:

"هالك كذبه ابو داود وقال احمد بن حنبل خرقنا حديثه منذ دهر"[2]

یعنی راوی نمبر 3 ہالک ہے،اس کو ابو داود نے جھوٹا کہا ہے  اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے :ہم نے تو اس کی حدیث کو مدت ہوئی  پھاڑ ڈالا اور حدیث کی صحت کے لیے اس کے کل  راویوں کا سچا ہونا ضرور ہے اور جب اس حدیث کا راوی نمبر 3 جھوٹا ہے تو یہ حدیث صحیح نہیں ۔

وجہ سوم:

اس حدیث کی اسناد میں راوی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  ہیں،ان کی نسبت "تقریب التھذیب" میں ہے:

"كان يرسل كثيرا ويدلس"[3]

یعنی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  ارسال بہت کیا کرتے تھے اور تدلیس بھی کیا کرتے تھے۔میزان الاعتدال میں ہے:

"كان الحسن كثير التدليس فاذا قال في حديث عن فلان ضعف الاحتجاج به"[4]

یعنی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  کثیر التدلیس تھے،پس جب یہ کسی حدیث میں عن فلان کہیں(یعنی عن کے ساتھ روایت کریں اور اپنا سماع اپنے شیخ سے نہ بیان کریں) تو ان کے ساتھ احتجاج ضعیف ہوگا۔

صحت حدیث کے لیے اس کی اسناد کا من اولہ الی آخرہ متصل ہونا ضرور ہے اور جب راوی مدلس ہو اور عن کے ساتھ روایت  کرے،یعنی اپنا سماع اپنے شیخ سے نہ بیان کرےتو سند کا متصل ہونا ثابت نہیں ہوتا اور مانحن فیہ میں حسن بصری نے عن کے ساتھ  روایت کی ہے پس یہ حدیث صحیح نہیں ہوئی۔

الحاصل بیان بالا سے بخوبی ثابت ہے کہ حدیث زیر بحث صحیح نہیں ہے اور مسئلہ ثانیہ کہ"اگر عقیقہ میں گائے اور شتر کا ذبح کرنا بقول جمہور جائز ہے تو ایک گائے اور ایک شتر سات عقیقہ کے لیے کافی ہے یا نہیں؟کے متعلق بھی کوئی آیت یا حدیث معلوم نہیں ہوئی۔پس اگر عقیقہ کے بارے میں کہا جائے کہ اس میں بھی مثل اضیحہ کے ایک گائے یا ایک شتر سات عقیقہ کے لیے کافی ہے تو یہ بات محض قیاساً علی الاضیحہ کہی جاسکتی ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ عقیقہ کا قیاس اضیحہ پر صحیح بھی یا نہیں؟

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے قول"نشترط بدنة او بقرة كاملة"(عقیقے میں)مکمل اونٹ اور گائے کی شرط لگائی جاتی ہے سے جو نیل الاوطار(4/274) میں منقول ہے ظاہر ہوتا ہے کہ امام احمد نے اس قیاس کو صحیح نہیں جانا اور امام رافعی کے قول:

"يجوز اشتراك سبعة في الابل والبقر كما  في الاضحية"[5]

اونٹ اور گائے  میں قربانی کی طرح(عقیقے میں بھی) سات حصے داروں کا شریک ہونا جائز ہے۔سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اس قیاس کو صحیح سمجھا،مگر ان کے اس قدر قول سے کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ انھوں نے دونوں(عقیقہ اور اضیحہ) میں کیا جامع قراردیا ہے کہ اُس پر غور کیا جائے اور اگر جامع ان دونوں میں تقرب باراقۃ الدم قرار دیا جائے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو اس یہ شبہہ ہوتا ہے کہ اس  تقدیر پر لازم ہوگا کہ ہر دم متقرب بہ میں احکام  اضیحہ معتبر ہوں،حالانکہ ذبیحہ العرس اور دیگر دمائے ولائم میں کوئی بھی نہیں کہتا کہ ان میں احکام اضیحہ کا اعتبار لازم ہے۔حالانکہ اس قائس کے نزدیک کل دمائے ولائم متقرب بہا ہیں،نیز عقیقہ اور اضیحہ میں شارع نے یہ فرق کیا ہے کہ عقیقہ میں پسر کی طرف سے دو بکریاں رکھی ہیں اور دختر کی طرف سے ایک ہی بکری اور اضیحہ میں ایسا نہیں ہے۔

الحاصل عقیقہ کا قیاس اضیحہ پر صحیح ہے یا نہیں؟یہ کچھ معلوم نہیں ہوتا،ایسی حالت میں احتیاط اسی میں ہے کہ ماثور عن الشارع پر اقتصار کیا جائے اور بلاضرورت رائے اور قیاس کو اس میں دخل نہ دیا جائے۔واللہ اعلم وعلمہ اتم۔


[1] ۔میزان الاعتدال(1/17) سوالات الحاکم للدارقطنی(ص:101)

[2] ۔میزان الاعتدال(98/4)

[3] ۔تقریب التھذیب(ص:160)

[4] ۔میزان الاعتدال(1/527)

[5] ۔نیل الاوطار(4/274)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:316

محدث فتویٰ

تبصرے