اگر کوئی شخص عقیقہ میں گائے ذبح کرے تو اس میں مثل اضیحہ کے سات عقیقہ جائز ہے یا نہیں؟
اس بارے میں کوئی نص میری نظر سے نہیں گزری ہے ہاں قیاساً علی الاضیحہ جائز ہے بشرط یہ کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث مرفوع:
اس(بچے) کی طرف سے اونٹ،گائے اور بکری کے ساتھ عقیقہ کیا جائے۔جو نیل الاوطار میں طبرانی اور ابو شیخ کے حوالے سے منقول ہے قابل احتجاج ہو ،مگر چونکہ ایسی کوئی کتاب جس میں اس حدیث کی اسناد یا ائمہ حدیث میں سے جو متسائل نہ ہوں،ان کی تصیح یا تحسین منقول ہو،میرے پاس موجود نہیں ہے،لہذا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔اسی طرح اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ عقیقہ کا قیاس اضیحہ پر صحیح ہے یا نہیں؟نیل الاوطار(4/374) میں جو یہ عبارت منقول ہے:
"ونص احمد علي انها تشترط بدنة او بقرة كاملة"امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ صراحت کی ہے کہ اس (عقیقے) میں مکمل اونٹ اور گائے کی شرط لگائی جاتی ہے۔
سو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس قیاس کو صحیح نہیں جانا اور امام رافعی کے قول:
"ويجوز اشتراك سبعة في الابل والبقر كما في الاضحية"اونٹ اور گائے میں قربانی کی طرح(عقیقے میں) سات حصے داروں کی شراکت جائز ہے۔سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اس قیاس کو صحیح سمجھا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان دونوں (عقیقہ اور اضیحہ) میں جامع کیا ہے کہ اس پر غور کیا جائے اور اگر جامع ان دونوں میں"تقریب باراقۃ الدم"خون بہا کر قرب الٰہی حاصل کرنا ۔قرار دیا جائے،جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو اس پر یہ شبہہ وارد ہوتا ہے کہ اس تقریر پر لازم ہوگا کہ ہر دم متقرب بہ میں احکام اضیحہ معتبر ہوں ،حالانکہ ذبیحہ العرس اور دیگر دمائے ولائم میں کوئی بھی نہیں کہتا کہ احکام اضیحہ کا اعتبار لازم ہے۔
الحاصل احتیاط اسی میں ہے کہ ماثور عن الشارع پر اقتصار کیا جائے اور بلا ضرورت اس میں رائے اور قیاس کو دخل نہ دیا جائے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔کتبہ:محمد عبداللہ (9/ربیع الاول 1332ھ)
[1] ۔المعجم الصغیر للطبرانی(1/150)