سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) قربانی کی کھال کا مصرف

  • 22911
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1434

سوال

(146) قربانی کی کھال کا مصرف
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔جو مدرسہ عند اللہ رفاء عام مسلمانان کے واسطے قائم ہو اور اس کے قیام کی کوئی صورت ظاہر اً نہ ہو جس سے وہ مدرسہ قائم رہے بجز اس کے کہ قربانی کا چمڑا اگر مل جائے تو مدرسہ قائم رہے گا ۔ایسی صورت میں چمڑا مذکورکو مدرسہ میں دینا جائز ہوگا یا نہیں؟کیونکہ بوجہ دیہات کے چند اشخاص کا قول ہے کہ اگر علمائے دین مدرسہ میں دینے کو فرمادیں تو ہم لوگوں کو عذر نہیں ہے۔ضروردیں گے۔

2۔جو لوگ اپنی قوت بازو سے اچھی طرح اپنی اوقات بسری کرتے ہیں ان لوگوں کو بہ نیت اس کے کہ ہم قربانی کے مال کو ذبح کرتے ہیں یہ حق ہمارا ہے ہم لیں گے ان کو لینا جا ئز ہے یا نہیں؟یا جو شخص صاحب قربانی یہ تصور کر کے چمڑا قربانی کا ان لوگوں کو دے کہ ذبح کرنے کی اجرت میں دیتے ہیں یا یہ تصور کر کے کہ اگر نہیں دیں گے تو ہمارے ساتھ عدادت کریں گے ایسی حالت میں اس کی قربانی درست ہوئی یا نہیں؟یا جو لوگ قربانی کا چمڑا مدرسہ میں دینے سے انکار کریں یا منع کریں کہ مت دو ہم کو دو وہ کون ہوں گے گنہگارہوں گے یا نہیں ؟ازروئے قرآن شریف و حدیث شریف کے جو ثابت ہو ساتھ ثبوت کے ارشاد فرمایا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس طرح قربانی کے گوشت کا قربانی کرنے والے کو خود بھی کھانا اوردوسرے لوگوں کو بھی (فقیر ہویا غنی ) کھلانا اور دینا جائز ہے اسی طرح قربانی کا چمڑا قربانی کرنے والے کو خود بھی اپنے تصرف میں اور دوسرے لوگوں کو بھی جس کو چاہے دے دینا جائز ہے اور جس طرح قربانی کے گوشت کا قربانی کے گوشت کا قربانی کرنے والے کو بیچنا یا کسی کو اجرت میں دینا جائز نہیں ہے اور جس طرح قربانی کے گوشت کا طلبہ اور مدرسین کو دینا جائز ہے اسی طرح قربانی کے چمڑا کا بھی ان لوگوں کو بھی دینا جائز ہے اور اگر قربانی کے گوشت یا چمڑے کو قربانی کرنے والا بیچے یا کسی کو اجرت میں دے تو اس کی قربانی درست نہیں ہوئی ۔

عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقوم على بدنه وأن أتصدق بلحمها وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا , وَأَنْ لا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا شَيْئًا وقال نحن نعطيه من عندنا[1](متفق علیه)

(علی بن ابی طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے اونٹوں کے پاس کھڑا ہو جاؤں (جب کہ وہ نحرکیے جارہے تھے) اور ان کے گوشت چمڑے اور جھول تقسیم کردوں قصاب کو ان میں سے کوئی چیز نہ دوں اور فرمایا : ہم اس (قصاب) کو (اس کی مزدوری ) ہم اپنے پاس سے دیں گے)

وعن أبي سعيد أن قتادة بن النعمان أخبره { أن النبي صلى الله عليه وسلم قام فقال إني كنت أمرتكم أن لا تأكلوا لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام  ليسعكم واني احله لكم فكلوا ما شئتم ولا تبيعوا لحوم الهدي والاضاحي وكلوا وتصدقوا واستمتعوا بجلودها ولا تبيعوها وان اطعتم من لحومها شئيا فكلوا الي ماشئتم

[2](رواہ احمد المتقی)

(ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ قتادہ بن نعمان نے ان کو خبر دی کہ یقیناً نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے کھڑے ہو کر فرمایا:میں نے تم کو قربانیوں کے گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کر رکھا تھا تاکہ وہ تم تمام کو پہنچ جائیں یقیناً اب ان کو تمھارے لیے (تین دن سے زیادہ کھانا) حلال کرتا ہوں لہٰذا جب تک چاہو کھاؤ ہدی اور اضاحی کا گوشت فروخت نہ کرو ۔ کھاؤ صدقہ کرو اور ان کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ ۔ان (چمڑوں) کو نہ بیچو ۔ اگر تم ان کے گوشت میں سے کچھ کھلا دو تو جتنی دیر تک چاہو ان کو کھاؤ)

وقوله عليه الصلاة والسلام { من باع جلد أضحيته فلا أضحية له[3](واللہ تعالیٰ اعلم)

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا : جس نے اپنی قربانی کی کھال بیچی اس کی قربانی نہیں ہوئی ۔ اس کو حاکم نے مستدرک میں سورۃ الحج کی تفسیر زید بن الحباب کی حدیث سے روایت کیا ہے انھوں نے عبد اللہ بن عیاش المصری سے روایت کیا ہے انھوں نے اعرج سے روایت کیا انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور فرمایا کہ اس کو بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا نیز امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ   رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے اپنی سنن میں روایت کیا ہے (نصب الرایۃ لا حدیث الھدایۃ :279/2)

حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب "الترغیب والترہیب " میں کہا ہے کہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   سے کئی ایک روایات مروی ہیں جن میں قربانی کی کھال فروخت سے منع فرمایا گیا ہے) کتبہ: عبد اللہ (19/ذی القعدہ 1329ھ)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1630)صحیح مسلم رقم الحدیث (317)

[2] ۔مسند احمد (15/4) منتقی الاخبار مع شرحہ نیل الاوطار(191/5)

[3] ۔الترغیب والترہیب(101/2)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:304

محدث فتویٰ

تبصرے