سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) نماز عیدین میں عورت کی امامت

  • 22903
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1268

سوال

(138) نماز عیدین میں عورت کی امامت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چند عورتیں آپس میں امام مقتدی بن کر عید کی نماز پڑھ سکتی ہیں یا نہیں اور یہ کن کن اماموں کے نزدیک جائز و ناجائز ہے؟ صراحت کے ساتھ مطلع فرمائیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پڑھ سکتی ہیں جیسا کہ حاکم نے مستدرک میں اور عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور امام محمد نے کتاب الآثار میں روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرض نمازوں میں تراویح میں عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں۔[1]

اسی طرح عبد الرزاق وابن ابی شیبہ نے اپنے اپنے مصنف میں اور امام شافعی نے اپنی مسند میں روایت کی ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  بھی عورتوں کی امامت کرتی تھیں [2]

روى أبو داود أيضاً عن الوليد بن عبد الله بن جميع قال حدثتني جدتي وعبد الرحمن بن خلاّد الأنصاري عن أم ورقة بنت نوفل:
وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فِي بَيْتِهَا وَجَعَلَ لَهَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لَهَا وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا[3]
ورواه الحاكم في المستدرك ولفظه امرها ان توم اهل دارها في الفرائض [4]
وقد ا حتج مسلم بالوليد بن جميع وقال المنذري في مختصرة الوليد بن جميع فيه مقال وقد احتج له مسلم وقال ابن القطان في كتابه الوليد بن جميع وعبد الرحمان بن خلاد لا يعرف حالهما قلت ذكرهما ابن حبان في الثقات وروي عبد الرزاق في مصنفه عن ابن عباس قال:توم المراة النساء تقوم وسطهن[5]

(امام ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی سنن میں ولید بن جمیع سے بیان کیاہے انھوں نے عبد الرحمٰن بن خلاد سے روایت کیاہے انھوں نے ام ورقہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   اس کے ہاں اس کے گھر میں ملنے کے لیے آیا کرتے تھے اور اس کے لیے ایک موذن مقرر کر رکھا تھا جو اس کے لیے اذان دیتا ہے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسے (ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ) حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھروالوں کی امامت کرایا کرے۔ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ  نے مستدرک میں اسے روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسے (ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   )حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی فرائض میں امامت کرایا کرے۔"امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے ولید بن جمیع سے حجت پکڑی ہے علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مختصر میں فرمایا ہے ولید بن جمیع پر کلام ہے جب کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے اس سے احتجاج کیا ہے ابن القطان رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب میں کہا ہے ولید بن جمیع اور عبد الرحمٰن بن خلاد کا حال معلوم نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے عبد الرزاق  رحمۃ اللہ علیہ   نے اپنی مصنف میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت کرائے اور وہ ان کے وسط میں کھڑی بنو۔یعنی مرد امام کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو)

یہ سب روایتیں "نصب الراية لا حادیث الھداية"(ص111)سے نقل کی گئی ہیں ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں آپس میں امام ومقتدی بن کر فرض نماز بھی اور غیر فرض بھی پڑھ سکتی ہیں اور جب فرض اور غیر فرض دونوں قسم کی نمازیں اس طرح پڑھ سکتی ہیں تو عید کی نماز کیوں نہیں پڑھ سکتیں؟عید کی نماز بطریق اولیٰ پڑھ سکتی ہیں صحیح بخاری میں ہے۔

باب إذا فاته العيد يصلي ركعتين وكذلك النساء ومن كان في البيوت والقرى لقول النبي صلى الله عليه وسلم هذا عيدنا أهل الإسلام [6]

(اس بارے میں باب کہ جب آدمی کی نماز عید رہ جائے تو وہ دورکعتیں اداکرے اور عورتیں بھی ایسا ہی کریں اور وہ لوگ بھی جو گھروں اور بستیوں میں ہوں اس کی دلیل نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ فرمان ہے یہ ہماری اہل سلام کی عیدہے)

فتح الباری (533/4)میں ہے۔

وأشكلت مطابقته للترجمة على جماعة . وأجاب ابن المنير بأن ذلك يؤخذ من قوله - صلى الله عليه وسلم - إنها أيام العيد فأضاف نسبة العيد إلى اليوم فيستوي في إقامتها الفذ والجماعة والنساء والرجال ، قال ابن رشد : وتتمته أن يقال إنها أيام عيد أي لأهل الإسلام بدليل قوله في الحديث الآخر عيدنا أهل الإسلام ولهذا ذكره البخاري في صدر الباب ، وأهل الإسلام شامل لجميعهم أفرادا وجمعا ، وهذا يستفاد منه الحكم الثاني لا مشروعية القضاء ، قال : والذي يظهر لي أنه أخذ مشروعية القضاء من قوله فإنها أيام عيد أي أيام منى ، فلما سماها أيام عيد كانت محلا لأداء هذه الصلاة ؛ لأنها شرعت ليوم العيد فيستفاد من ذلك أنها تقع أداء وأن لوقت الأداء آخرا وهو [ ص: 551 ] آخر أيام منى . قال : ووجدت بخط أبي القاسم بن الورد : لما سوغ - صلى الله عليه وسلم - للنساء راحة العيد المباحة كان آكد أن يندبهن إلى صلاته في بيوتهن قوله في الترجمة " وكذلك النساء " مع قوله في الحديث دعهما فإنها أيام عيد .

 (اہل علم کی) ایک جماعت کو مذکورہ بالا حدیث کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مطابقت مشکل محسوس ہوئی جس کا جواب ابن المیز نے یہ دیا ہے کہ یہ مطابقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے اس فرمان سے نکالی جائے گی۔"بلاشبہ وہ ایام عید ہیں۔"چناں چہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عید کی نسبت یوم کی طرف کی ہے پس اس کو قائم کرنے میں اکیلا آدمی اور لوگوں کی ایک جماعت عورتیں اور مرد سب برابر ہیں ابن رشید نے کہا ہے کہ اس کا تتمہ یہ ہے کہ کہا جائے کہ یقیناً وہ ایام عید ہیں یعنی اہل سلام کے لیے اس دلیل کے ساتھ کہ دوسری حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کایہ فرمان ہے "ہم اہل اسلام کی عید "اسی لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے باب کے شروع میں ذکر فرمایا ہے اہل اسلام کا لفظ ان کے تمام افراد اور پوری جماعت کو شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ابو القاسم بن الورد کے ہاتھ سے لکھا ہوا پایا کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عورتوں کے لیے مباح راحت عید کو جائز قراردیا تو تاکید ی بات یہی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   ان کوان کے گھروں میں نماز عید پڑھنے کا حکم دیتے لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کا ترجمۃ الباب میں یہ لفظ "وکذلک النساء "(اور اسی طرح عورتیں) حدیث کے الفاظ:

«دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهُ يَوْمُ عِيدٍ»

(ان کو (جہادی ترانے پڑھتی ہوئی) چھوڑ دو بلا شبہ یہ یام عید ہیں) کے مطابق ہو جاتا ہے۔کتبہ :محمد عبد اللہ (3/محرم 1335ھ)


[1] ۔مخفی نہ رہے کہ اس امر کا خیال و لحاظ ضروری ہے کہ مقلدین کے پیچھے نماز درست و صحیح ہے یا نہیں ؟اگر درست و صحیح ہے اور بایں ہمہ وہ اہل حدیث کی مزاحمت نہیں کرتے بلکہ شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس صورت میں اہل حدیث کو ان کے ہمرا ہ نماز عیدین قائم و ادا کرنا علیحدہ جماعت قائم کرنے سے اولیٰ و افضل ہے اور اس کے دلائل وہی ہیں جو علامہ مفتی صاحب نے تحریر فرمائے ہیں پس واضح ہو کہ مقلدین میں دو قسم کے اشخاص پائے جاتے ہیں ایک تو وہ کہ التزام شرک میں مبتلا ہیں جیسے قبروں کا عرس کرنا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نسبت اعتقاد و علم غیب اور آپ کی روح مبارک کے متعلق یہ کہ وہ ایک وقت میں مقامات مختلفہ میں دورو نزدیک حاضر ہوسکتی ہے اور امور منصوصہ متفق علیہا کی مخالفت مثلاًکسی امر کی حرمت منصوصہ متفق علیہا ہے اور اس کو حلال قرار دینا ایسے اشخاص مشرک ہیں ان کے اعمال دنیاوی و دینی لحاظ سے سب ضائع و باطل ہیں جیسا کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے۔ 

﴿أُولـٰئِكَ الَّذينَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ...﴿٢٢﴾... سورة آل عمران

ایسوں کے ساتھ جماعت قائم کرنا یا ان کے پیچھے نماز اداکرنا ہر گز درست نہیں دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو التزام شرک میں مبتلا نہیں اور امور شرکیہ مذکورہ بالا سے اسی طرح نفرت کرتے ہیں جس طرح اہلحدیث ہر چند امور اجتہاد میں تقلید کو ضروری قراردیتے ہیں لیکن اپنا اعتقاد اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث سب اقوال پر مقدم ہیں اگر ان کا عمل اس اعتقاد کے خلاف پایا گیا تو عملی حالت قابل ملامت ہوگی نہ کہ اعتقاد ۔ایسے اشخاص بہت کم ہیں جن کی حالت عملی قابل ملامت نہ ہو اور افسوسناک ایسے اشخاص کے پیچھے نماز درست ہے یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ مسائل مختلف فیہا جن میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے اس سے نہ افراد اہل حدیث خالی ہیں نہ دیگراشخاص لیکن اس اختلاف کا منشا اگر فہم و تحقیق کا مختلف اور جدا جدا ہونا ہے تو قابل ملامت نہیں ہوسکتا کیوں کہ صحابہ و تابعین وغیرہم میں بھی ایسے اختلاف اور ایسی صورت پائی گئی اور اگر خدانخواستہ حیلہ سازی و اہلہ فریبی ہے تو قابل طعن وتشنیع ہے کیوں کہ یہ منافقانہ و مفسدانہ کاروائی ہے اور اس کی شناخت یوں ہوسکتی ہے کہ جب کسی موقع پر ظاہر کیاجائے کہ فلاں فلاں مسائل مختلف فیہا میں ہر فریق اپنی تحقیق کے موافق اپنے دلائل پیش کرے اور دعوی پایہ ثبوت کوپہنچ جائے تو جو شخص حیلہ ساز واہلہ فریب ہوگا وہ بالائی کاروائی اور حیلہ و حوالہ سے کام لے گا اور دعوے کو مدلل نہ کر سکے گا۔اور جو ایسا نہ ہو گا وہ دلائل پیش کرے گا پس اگر فہم و تحقیق سے اختلاف پیدا ہوا ہے تو ایسے اشخاص کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح و درست ہے اور حیلہ ساز واہلہ فریب کے پیچھے نماز ادا کرنا ان کی حیلہ سازی پر سہارا لگا کر امداد کرنا ہے۔

﴿ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ... ﴿٢﴾... سورة المائدة
قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

اس کی سند میں انقطاع ہے دیکھیں المطالب العالیہ (139/8)العاجز عبدالجبار عمر پوری کان اللہ لہ (یہ فتوی الگ ورق پر منقول تھا جس پر مولانا عبد الجبار صاحب کا جواب بھی مع دستخط و مہر درج تھا اس سے یہاں نقل کر لیا گیا)

[2] ۔مصنف عبدالرزاق (140/3)مصنف ابن ابی شیبہ (430/1)نیز دیکھیں تمام المنۃ (ص153)

[3] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (592)

[4] ۔المستدرک (320/1)

[5] ۔مصنف عبدلرزاق (40/1)

[6] ۔صحیح البخاری (334/1)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:297

محدث فتویٰ

تبصرے