سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(135) جمعے کے روز اگر عید بھی ہوتو نماز جمعہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟

  • 22900
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 869

سوال

(135) جمعے کے روز اگر عید بھی ہوتو نماز جمعہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ کے روز اگر عید بھی ہوتو نماز جمعہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرع سے رخصت ہے نماز جمعہ بھی اگر پڑھ لے تو بہتر ہے ورنہ کچھ مضائقہ نہیں ہے۔

حديث زيد بن أرقم رضي الله عنه أن معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه سأله: هل شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عيدين اجتمعا في يوم واحد؟ قال: نعم، قال: كيف صنع؟ قال: صلى العيد ثم رخص في الجمعة، فقال: (من شاء أن يصلي فليصل")

[1](رواہ احمد و ابو داؤد ابن ماجہ)

(زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان سے سوال کیا کیا آپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ ایک دن میں دو عیدوں (جمعہ اور عید)میں حاضر ہوئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عید کی نماز ادافرمائی پھر جمعے کی رخصت دے دی پھر فرمایا:جو جمعہ پڑھنا چاہے پڑھ لے)

أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (قد اجتمع في يومكم هذا عيدان، فمن شاء أجزأه من الجمعة، وإنا مجمعون[2]

(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے بیان کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا تمھارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں تو جو شخص چاہے اس کے لیے یہ (نماز عید) جمعے کے بدلے کفایت کرے گی اور ہم جمعہ پڑھیں گے)

عن وهب بن كَيْسَان قال:اجتمع عيدان على عهد ابن الزّبير؛ فأخَّر الخروج حتى تعالى النهار، ثم خرج فخطب، فأطال الخطبة، ثم نزل فصلى، ولم يصل للناس يومئذ الجمعة. فذُكِرَ ذلك لابن عباس؟ فقال: أصاب السنة. وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داود تحت رقم (983). [3]

(وہب بن کیسان نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور (خلافت) میں جمعہ اور عید اکٹھے ہوگئے تو انھوں نے عید کے لیے نکلنے میں دیر کر دی حتی کہ دن (کافی ) اونچا ہوگیا پھر وہ نکلے اور خطبہ دیا پھر اترے اور عید کی نماز پڑھائی اور اس دن لوگوں کو جمعہ نہیں پڑھایا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ بات ذکر کی گئی تو انھوں نے فرمایا : انھوں نے سنت پر عمل کیا)

رواه النسائي وأبو داود بنحوه ، لكن من رواية عطاء ولأبي داود عن عطاء قال :  اجتمع يوم الجمعة ويوم الفطر على عهد ابن الزبير فقال : عيدان اجتمعا في يوم واحد فجمعهما جميعا فصلاهما ركعتين بكرة لم يزد عليهما  حتي صلي العصر[4]

(متقی الاخبارمطبوعہ فاروقی ص104)

(نسائی اور ابو داؤد نے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن عطا کی روایت سے ابو داؤد میں بھی عطا کے واسطے سے ہے انھوں نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور(خلافت ) میں جمعے کا دن اور عید الفطر کا دن اکٹھے ہوگئے تو انھوں نے کہا کہ دو عیدیں (جمعہ اور عید ) ایک ہی دن میں اکٹھی ہوگئی ہیں پھر انھوں نے ان دونوں کو جمع کردیا اور پہلے پہر دورکعتیں پڑھائیں اس پر کچھ اضافہ نہ کیا حتی کہ عصر پڑھی )

کتبہ :محمد سلیمان غفرلہ المنان الجواب صحیح کتبہ محمد عبد اللہ الجواب صحیح کتبہ ابو محمد ابراہیم ۔


[1] ۔مسند احمد (372/4)سنن ابی داؤد رقم الحدیث (1070)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1310)

[2] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (1073)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1311)

[3] ۔سنن النسائی رقم الحدیث(1592)

[4] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (952)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:291

محدث فتویٰ

تبصرے