سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) نماز تراویح کا حکم اور رکعات کی تعداد

  • 22877
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1664

سوال

(112) نماز تراویح کا حکم اور رکعات کی تعداد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔نمازِ تراویح سنت موکدہ ہے یا غیر موکدہ؟ یا نفل ہے یا مستحب ہے؟

2۔  بیس رکعتوں کی حدیثیں صحیح مرفوع آئی ہیں اور آٹھ رکعتوں کی حدیثیں صحیح مرفوع آئی ہیں؟ بحوالہ کتب معتبرہ و نقل عبارات کے جواب سے مشرف فرمائیں۔ بینوا تؤجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔  تراویح کا لفظ کسی آیت یا حدیث میں نہیں آیا ہے۔ ہاں قیامِ رمضان کا لفظ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔ اس نماز (قیامِ رمضان) کو جب سے لوگوں نے جماعت کے ساتھ ایک خاص طور پر پڑھنا شروع کیا، تب سے اس کا نام تراویح رکھ دیا، جیسا کہ فتح الباری وغیرہ میں مذکور ہے۔[1] قیامِ رمضان کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے:

(( من قام رمضان إیماناً و احتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه)) [2] (مشکوة، ص: ۱۶۵)

’’یعنی جو شخص ایماندار اور طالبِ ثواب ہو کر رمضان کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ جو کر چکا ہے، بخش دیے جائیں گے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور ایک یہ حدیث بھی وارد ہوئی ہے:

(( جعل الله صیامه فریضة وقیام لیله تطوعا )) [3] (مشکوة، ص: ۱۶۵)

’’یعنی الله تعالیٰ نے ماہِ صیام میں روزے کو فرض کیا ہے اور اس کی رات کے قیام کو تطوع بنایا ہے۔‘‘

یہ حدیث بیہقی نے روایت کی ہے، اس کی سند کا حال معلوم نہیں ہے کہ صحیح ہے یا نہیں؟ بہرکیف اس بارے میں کہ نمازِ تراویح سنت موکدہ ہے یا غیر موکدہ؟ کوئی صریح صحیح حدیث میری نظر سے نہیں گزری ہے، لہٰذا میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا جو اوپر مذکور ہوا۔

2۔  اس نمبر کے متعلق ایک رسالہ ہے، جس کا نام ’’رکعات التراویح‘‘ ہے۔[1]اس رسالے میں جواب نمبر۶ مفصل ملے گا، لہٰذا ایک جلد رسالہ مذکورہ ارسالِ خدمت ہے۔


[1] ۔فتح الباري(250/4)

[2] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (37)صحیح مسلم رقم الحدیث(759)

[3]   صحیح ابن خزیمة (۲/ ۲۶۲) شعب الإیمان (۳/ ۳۰۵) اس کی سند میں ’’علي بن زید بن جدعان‘‘ ضعیف ہے۔

[4] ۔یہ رسالہ حضرت حافظ صاحب غازی پوری کے دیگر رسائل کے ساتھ عن قریب طبع ہو گا۔ ان شاء اللہ ۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:244

محدث فتویٰ

تبصرے