السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جماعت کے سردار نے کسی کو خطیب مسجد کا مقرر کیا تھا۔ اب دوسرا ایک شخص زبردستی بے حکم سردار کے امام بن کر اس مسجد میں نماز پڑھاتا ہے، اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس دوسرے شخص کے پیچھے نماز تو جائز ہے، لیکن خود اس شخص کی نماز اس زبردستی امامت کرنے سے عند الله مقبول نہیں ہے، بلکہ وہ شخص اس زبردستی بے حکم سردار کے امامت کرنے سے گنہگار اور الله پاک کا نافرمان ہے۔
عن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول: (( ثلاثة لا یقبل الله منھم صلاة، من تقدم قوما، وھم لہ کارھون )) الحدیث (رواہ أبو داؤد وابن ماجہ) [1]
[عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: الله تعالیٰ تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں فرماتا: ایک وہ آدمی جو قوم کا امام بن جائے، حالانکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں]
قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( ثلاثة لا یجاوز صلاتھم آذانھم: العبد الآبق حتی یرجع، و امرأة باتت وزوجھا علیھا ساخط، وإمام قوم وھم لہ کارھون )) [2]
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں جاتی: مفرور غلام حتی کہ وہ واپس آجائے، وہ عورت جو اس حال میں رات بسر کرے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو اور لوگوں کا امام، جب کہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں]
وعن أبي مسعود عقبة بن عمرو رضی اللہ عنہ قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( لا یؤمن الرجل الرجل في سلطانه )) [3] (رواہ أحمد و مسلم، و رواہ سعید بن منصور)
[ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی کسی آدمی کی سربراہی کی جگہ امامت نہ کرائے]
وفیہ: (( لا یؤم الرجل الرجل في سلطانہ إلا بإذنہ ))
[اور اسی میں ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کی ریاست میں اس کی اجازت کے بغیر امامت نہ کرائے]
وعن أبي ھریرة رضی اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: (( لا یحل لرجل یؤمن ب الله والیوم الآخر أن یؤم قوما إلا بإذنھم )) الحدیث[4] (المنتقی مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی، ص: ۹۰ و ۹۲)
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے حلال نہیں کہ بغیر اجازت کے کسی قوم کی امامت کرائے]
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۵۹۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۵۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۹۷۰) اس کی سند ضعیف ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ حدیث صحیح ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لکن الحدیث قد صح بمجموع روایۃ جمع من الصحابۃ بألفاظ متقاربة‘‘ (السلسلة الصحیحة: ۵/ ۳۲۴)
[2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۶۰) اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے۔
[3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۶۷۳) مسند أحمد (۴/ ۱۲۱)
[4] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۹۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب