سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(98) تسبیح مروج کی شرعی حیثیت

  • 22863
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-27
  • مشاہدات : 792

سوال

(98) تسبیح مروج کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تسبیح مروجہ پر تسبیح و تہلیل پڑھنا کیسا ہے؟ یہ صورت خاص تسبیح پڑھنے کی زمانہ خیر القرون میں مروج تھی یا نہیں؟ اس کے منع یا جواز میں کوئی حدیث صحیح رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تسبیح مروجہ پر تسبیح و تہلیل پڑھنا جائز ہے، لیکن خلاف اولیٰ ہے۔ یہ صورت خاص تسبیح پڑھنے کی زمانہ خیر القرون میں مروج معلوم نہیں ہوئی اور نہ اس صورت خاص کے منع یا جواز میں کوئی حدیث صحیح رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی دیکھی گئی۔ اس کا جواز اس وجہ سے ہے کہ تسبیح و تہلیل کھجور کی گٹھلیوں یا سنگریزوں پر پڑھنے کی تقریر رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے اور تسبیح مروجہ کھجور کی گٹھلیوں اور سنگریزوں کے ہم معنی ہے، اور خلافِ اولیٰ اس وجہ سے ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھجور کی گٹھلیوں یا سنگریزوں پر تسبیح و تہلیل پڑھنے کو خلافِ اولیٰ فرمایا ہے، تو تسبیحِ مروجہ پر بھی جو انھیں کے ہم معنی ہے، تسبیح و تہلیل پڑھنا خلافِ اولیٰ ہوگا۔

عن سعد بن أبي وقاص رضی اللہ عنہ  أنہ دخل مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  علی امرأة، وبین یدیھا نوی أو حصی تسبح بہ، فقال: (( أخبرک بما ھو أیسر علیک من ھذا أو أفضل؟ سبحان الله عدد ما خلق في السماء، وسبحان   الله عدد ما خلق في الأرض، وسبحان الله عدد ما بین ذلک، و سبحان الله عدد ما ھو خالق، و  الله أکبر مثل ذلک، والحمد مثل ذلک، ولا إلٰہ إلا الله مثل ذلک، ولا حول ولا قوة إلا ب  الله مثل ذلک )) [1] (رواہ أبو داود والترمذي)

[سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک عورت کے پاس آئے، جب کہ اس عورت کے سامنے گٹھلیاں تھیں یا کنکریاں، وہ ان کے ساتھ تسبیح پڑھ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمھارے لیے اس سے آسان تر یا افضل ہو؟ (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:) ((سبحان   الله عدد ما خلق في السماء ۔۔۔ الخ ))   الله کی تسبیح ہے، اس مخلوق کی تعداد برابر جو اس نے آسمان میں پیدا کی۔   الله کی تسبیح ہے، اس مخلوق کی تعداد برابر جو اس نے زمین میں پیدا کی۔   الله کی تسبیح ہے اس مخلوق کی تعداد برابر جو اس نے ان دونوں کے مابین پیدا کی۔   الله کی تسبیح ہے، اس مخلوق کی تعداد میں جو وہ پیدا کرے گا۔   الله أکبر اسی کے مثل،" الحمد ﷲ" اسی کے مثل، "لا الٰہ الا   الله" اسی کے مثل اور "لا حول ولا قوة الا بالله" اسی کے مثل]

وعن صفیۃ قالت: دخل علي رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  وبین یدي أربعة آلاف نواة أسبح بھا، فقال: (( لقد سبحت بھذا، ألا أعلمک بأکثر مما سبحت بہ؟ )) فقالت: علمني، فقال: ((قولي سبحان   الله عدد خلقہ )) [2] (رواہ الترمذي)

[صفیہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس آئے، جب کہ میرے سامنے چار ہزار گٹھلیاں تھیں، جن کے ساتھ میں تسبیح پڑھ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تو ان (گٹھلیوں) پر تسبیح پڑھ رہی ہے، کیا میں تمھیں (ایسے کلمات ) نہ سکھا دوں، جن سے تو زیادہ (اجر و ثواب) پائے، ان (کلمات) کی نسبت جن کے ساتھ تو تسبیح پڑھ رہی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: ہاں، مجھے سکھا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کہہ"سبحان   الله عدد خلقہ" (  الله کی تسبیح ہے، اس کی مخلوق کی تعداد برابر)]

’’الحدیثان یدلان علیٰ جواز عد التسبیح بالنویٰ والحصیٰ، وکذا بالسبحۃ، لعدم الفارق لتقریرہ صلی اللہ علیہ وسلم  للمرأتین علیٰ ذلک، وعدم إنکارہ، والإرشاد إلیٰ ما ھو الأفضل لا ینافي الجواز ‘‘ (نیل الأوطار: ۲/ ۲۱۱)

[مذکورہ بالا دونوں حدیثیں گٹھلیوں، سنگریزوں اور اسی طرح سبحہ (مروجہ تسبیح) پر تسبیح شمار کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں،  کیونکہ  یہ (مروجہ تسبیح) ان (گٹھلیوں اور سنگریزوں) سے الگ نہیں ہے اور اس جواز کی دلیل نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی مذکورہ حدیثوں میں دو عورتوں کے لیے تقریر ہے۔ نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا انکار نہیں کیا۔ افضل چیز کی طرف راہنمائی کرنا اس (مفضول) کے جواز کے منافی نہیں ہے]


[1]              سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۰۰۰) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۵۶۸) اس کی سند میں ایک راوی ’’خزیمہ‘‘ مجہول ہے۔ دیکھیں:

تقریب التہذیب (ص: ۱۹۳) السلسلة الضعیفة (۱/ ۱۸۸)

[2]              سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۵۵۴) اس کی سند میں ’’ھاشم بن سعید الکوفي‘‘ ضعیف ہے۔ دیکھیں: السلسلة الضعیفة (۱/ ۱۸۹)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:221

محدث فتویٰ

تبصرے