سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(84) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

  • 22849
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1286

سوال

(84) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعد نماز فرائض پنج گانہ کے خود رسول  الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے دعا میں ہاتھ کا اُٹھانا اور بعد ختم دعا کے منہ پر پھیرنا ثابت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلوغ المرام کے ’’باب الذکر و الدعاء‘‘ میں ہے:

عن سلمان رضی اللہ عنہ  قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( إن ربکم حیي کریم، یستحي من عبدہ، إذا رفع یدیہ إلیہ أن یردھما صفرا )) أخرجہ الأربعة إلا النسائي، وصححہ الحاکم[1]

’’سلمان رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ بے شک تمھارا رب بڑا ہی حیا دار اور با کرم ہے کہ جب بندہ اپنے ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ بندے کے ہاتھوں کو خالی پھیرے۔‘‘ اس حدیث کو ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کیا اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عموماً دعا میں ہاتھوں کو اٹھانا مندوب و مستحب ہے۔ سنن ابی داود (ص: ۲۱۰) میں ہے: ’’عن ابن عباس قال: المسئلة أن ترفع یدیک حذو منکبیک‘‘[2] (الحدیث) ’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  نے کہا ہے کہ مسئلہ، یعنی خدائے تعالیٰ سے اپنی حاجتوں کو مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں تک اٹھائے۔‘‘ حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ  نے کتاب ’’فض الوعاء في أحادیث رفع الیدین في الدعاء‘‘ (ص: ۳) میں فرمایا: ’’رجالہ رجال الصحیح إلا العباس، ولا بأس بہ‘‘ اھ۔’’اس حدیث کے سب راوی، سوائے عباس بن عبد  الله کے، صحیح کے راوی ہیں اور عباس بن عبد  الله بھی ’’لا بأس بہ‘‘ ہے۔‘‘ یعنی وہ بھی مقبول راوی ہے۔

اس حدیث سے بھی وہی امر ثابت ہوتا ہے، جو پہلی حدیث سے ثابت ہوا تھا کہ عموماً دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا منجملہ مندوبات و مستحبات ہے اور بلوغ المرام کے باب مذکور میں ہے:

’’عن عمر رضی اللہ عنہ  قال: کان رسول  الله صلی اللہ علیہ وسلم  إذا مد یدیہ في الدعاء، لم یرد ھما حتی یمسح بھما وجھہ، أخرجہ الترمذي، ولہ شواھد، منھا عند أبي داؤد من حدیث ابن عباس وغیرھا، و مجموعھا یقتضي أنہ حدیث حسن‘‘[3]اھ۔

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  ہاتھوں کو دعا میں اٹھاتے تو جب تک ہاتھوں کو اپنے منہ کو نہیں مل لیتے تھے، ہاتھوں کو نہیں لوٹاتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کے شواہد بہت ہیں، جن میں سے ایک ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی حدیث ہے، جس کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور اس کے سوا اور بھی شواہد ہیں، جن کا مجموعہ اس بات کو مقتضی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی حدیث مذکور حدیث حسن ہے۔‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عموماً جب دعا میں ہاتھ اٹھائے تو یہ مسنون ہے کہ ہاتھوں سے منہ کو مل بھی لے۔ پہلی حدیث سے تو عام دعا کا یہ حکم ثابت ہوچکا کہ اس میں ہاتھوں کو اٹھانا مندوب ہے اور اِس حدیث سے عام دعا کا یہ حکم ثابت ہوا کہ جب اس میں ہاتھوں کو اٹھائے تو ہاتھوں سے منہ کو مل لینا بھی مسنون ہے۔ اب جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ نماز کے بعد کی دعا بالخصوص اس عام حکمِ دعا سے مستثنیٰ ہے تو اس دعوے کی دلیل مدعی کے ذمہ ہے، کیونکہ من ادعی فعلیہ البیان۔

پس اگر مدعی مذکور اپنے اس دعوے کو دلیل سے ثابت کرے گا، فعلی الرأس والعین، ورنہ اس کا یہ دعویٰ دیوار پر مارا جائے گا۔ اب ایک اور حدیث سن لیجیے، جس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، ایک یہ کہ نماز کے اندر دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا مسنون نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ نماز کے بعد کی دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا مسنون ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں محمد بن یحییٰ اسلمی سے روایت کیا ہے اور حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ  نے کتاب ’’فض الوعاء في أحادیث رفع الیدین في الدعاء‘‘ میں طبرانی سے بدیں الفاظ نقل کیا ہے:

’’قال: رأیت عبد   الله بن الزبیر ورأی رجلا رافعا یدیہ یدعو قبل أن یفرغ من صلاتہ، فلما فرغ منھا قال: إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘[4]

’’محمد بن یحییٰ اسلمی نے کہا کہ عبد  الله بن الزبیر رضی اللہ عنہما  نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کر رہا ہے۔ میں نے عبد  الله بن الزبیر رضی اللہ عنہما  کو دیکھا کہ جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو اس سے کہا کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا نہیں کرتے تھے، جب تک کہ نماز سے فارغ نہیں ہو لیتے۔‘‘

اس کے بعد حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ  نے کہا: ’’رجالہ ثقات‘‘ یعنی اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔ و  الله أعلم بالصواب۔


[1]              سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۴۸۸) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۵۵۶) سنن ابن ماجہ (۳۸۶۵)

[2]              سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۱۴۸۹)

[3]                اس حدیث کی تخریج اور تضعیف کے لیے دیکھیں (ص: ۲۱۹)

[4]              المعجم الکبیر للطبراني (۱/ ۲۱۱/ ۳) یہ حدیث ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: السلسلة الضعیفة، رقم الحدیث (۲۵۴۴)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:202

محدث فتویٰ

تبصرے