سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) قرآءت خلف الامام سے متعلق چند سوالات

  • 22846
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1098

سوال

(81) قرآءت خلف الامام سے متعلق چند سوالات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

۔ ابو خالد احمر سلیمان بن حیان جس کو تقریب میں ’’صدوق یخطیٔ‘‘ لکھا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ  نے ’’جزء القراء ۃ‘‘ (ص: ۵۷) میں فرمایا:

أبو خالد الأحمر عن ابن عجلان عن زید عن أبي صالح عن أبي ھریرة عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  (( إنما جعل الإمام لیؤتم بہ)) زاد فیہ: ((وإذا قرأ فأنصتوا ))

[ابو خالد الاحمد ابن عجلان سے، وہ زید سے، وہ ابو صالح سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کرتے ہیں کہ امام تو اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس میں یہ لفظ زائد ہیں کہ جب وہ پڑھے تو تم خاموشی اختیار کرو]

اس ابو خالد سے امام بخاری رحمہ اللہ  و مسلم رحمہ اللہ  نے اپنی دونوں صحیح میں کہیں روایت کی ہے یا نہیں؟

2۔  تفسیر ابنِ کثیر میں یہ عبارت ہے یا نہیں:

’’قال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس رضی اللہ عنہما  قولہ:﴿وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ﴾ یعني في الصلاة المفروضة‘‘

[علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بیان کیا کہ یہ آیت﴿وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ﴾ فرض نماز کے متعلق ہے]

اول تو میرے خیال میں یہ عبارت ہی غلط ہے۔ یعنی علی نے ابن عباس سے کہا۔ یعنی قول کا صلہ عن کے ساتھ۔ یہ میرا خیال درست ہے یا نہیں؟

 دوم: تقریب میں ہے:

’’علي بن أبي طلحة سالم مولیٰ بني العباس، سکن حمص، أرسل عن ابن عباس، ولم یرہ‘‘

[علی بن ابی طلحہ سالم مولی بنی العباس، حمص کا باسی، اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  کو دیکھا نہیں اور یہ ان سے مرسل روایت بیان کرتا ہے]

اگر یہی علی ہے تو ابن عباس کو کیا تعلیم کی ہوگی، جن کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن میں سمجھ کی تین بار دعا کی ہے۔ اگر اور کوئی علی بن ابی طلحہ ہو تو تفسیر موصوف کو دیکھ کر مع اُس کے حوالے کے اطلاع فرما دیں؟

3۔  حدیث (( وإذا قرأ فأنصتوا )) کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے کہیں صحیح کہا ہے؟ اگر کہیں پتا مل جائے تو اس سے بھی اطلاع فرما دیں۔

4۔  موطا امام محمد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  سے پتھر بھرنا الحمد پڑھنے والے کے منہ میں اور علقمہ سے آگ بھرنا مروی ہے یا نہیں؟ موطا کو ملاحظہ فرما کر تحریر فرما دیں۔

5۔  مصنف ابو بکر بن ابی شیبہ میں ابراہیم سے کوئی ایسی روایت ہے کہ الحمد پڑھنے والا فاسق ہے؟

6۔  عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  کی روایت ’’صلی رسول   الله علیہ وآلہ وسلم الصبح، فثقلت علیہ القراءة۔۔۔ الخ‘‘ [رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر قراء ت بھاری ہوگئی] میں محمد بن اسحاق راوی کے بارے میں ذہبی نے میزان الاعتدال میں سلیمان تیمی سے کذاب ہونا اور امام مالک سے دجال ہونا نقل کیا ہو تو تحریر فرما دیں۔

 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:    1۔ابو خالد احمر سلیمان بن حیان سے امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ  دونوں نے صحیحین میں روایت کی ہے، بلکہ کل اصحابِ ستہ نے ان سے روایت کی ہے۔ تقریب و خلاصہ و میزان الاعتدال ان تینوں کتابوں میں ابو خالد ہذا کے نام کے اوپر علامت ’’ع‘‘ مرقوم ہے،[1] جس کا یہ مطلب ہے کہ یہ رجالِ کتب ستہ سے ہیں۔ ’’میزان الاعتدال‘‘ (۱/ ۳۶۸) میں ابو خالد ہذا کی نسبت لکھا ہے: ’’قلت: الرجل من رجال الکتب الستة اھـ‘‘ [ میں کہتا ہوں کہ یہ کتبِ ستہ کے رجال میں سے ہے] لیکن امام بخاری رحمہ اللہ  نے ان سے بلا متابعت روایت نہیں کی ہے، بخلاف دیگر اصحابِ صحاح ستہ کے اور صرف ایک جگہ تعلیقاً بھی روایت کی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  مقدمہ فتح الباری (ص: ۴۷۲ چھاپہ دہلی) میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’قلت: لہ عند البخاري نحو ثلاثة أحادیث من روایتہ عن حمید و ھشام بن عروۃ و عبید الله بن عبد الله بن عمر، کلھا مما توبع علیہ، وعلق لہ عن الأعمش حدیثاً واحداً في الصیام، ورویٰ لہ الباقون‘‘ اھ

[میں کہتا ہوں کہ صحیح بخاری میں اس سے تقریباً تین احادیث حمید، ہشام بن عروہ اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر سے مروی ہیں۔ اس کی تمام روایات پر اس کی متابعت کی گئی ہے۔ (امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کتاب الصیام میں اعمش کے واسطے سے اس کی ایک حدیث معلق بیان کی ہے۔ اور دیگر (محدثین) نے بھی اس سے روایت بیان کی ہے]

2۔  تفسیر ابن کثیر (۴/ ۲۸۳) میں عبارت اس طرح ہے:

’’قال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس في الآیة قولہ:﴿وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا﴾ یعني في الصلاۃ المفروضة، وکذا روي عن عبد  الله بن المغفل‘‘

[علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے آیتِ قرآنی:﴿وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا﴾ کے بارے میں ان کا قول: ’’یعنی فرض نماز میں‘‘ روایت کیا ہے۔ عبد  الله بن مغفل سے بھی اسی طرح روایت کیا گیا ہے]

اس عبارت میں عربیت کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ایسی عبارت محدثین کے کلام میں بہت آتی ہے۔ اس عبارت میں تضمین ہے، یعنی ’’قَالَ‘‘ بمعنی’’رَویٰ‘‘ہے یعنی’’رویٰ علي بن أبي طلحة عن ابن عباس الخ‘‘ یا عن صلہ ہے ’’راویا‘‘ محذوف کا جو ’’قال‘‘ کی ضمیر سے حال ہے۔ یعنی ’’قال علي بن أبي طلحة راویا عن ابن عباس الخ‘‘ اس عبارت کا یہ ترجمہ نہیں ہے کہ علی بن ابی طلحہ نے ابنِ عباس سے کہا، تاکہ علی کا معلم ابن عباس ہونا لازم آئے۔

اس اثر کا جواب یہ ہے کہ اس کی سند متصل نہیں ہے۔ علی بن ابی طلحہ، جو ابنِ عباس سے راوی ہیں، ان کو ابنِ عباس سے سماع اور لقا نہیں ہے۔ انھوں نے تفسیر ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  سے مرسلاً روایت کی ہے۔ ثبت العرش ثم انقش!

تقریب میں ہے: ’’أرسل عن ابن عباس ولم یرہ‘‘[2]خلاصہ میں ہے: ’’عن ابن عباس مرسلاً‘‘[3] میزان الاعتدال (۲/ ۲۰۴) میں ہے: "أخذ تفسیر ابن عباس عن مجاھد، فلم یذکر مجاھدا بل أرسلہ عن ابن عباس"[اس نے مجاہد رحمہ اللہ  کے واسطے سے ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  کی تفسیر اخذ کی، پس اس نے مجاہد رحمہ اللہ  کا واسطہ چھوڑ کر اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مرسل بیان کر دیا] نیز اس میں ہے: ’’قال دحیم: لم یسمع علي بن أبي طلحة التفسیر من ابن عباس‘‘ [دحیم نے کہا کہ علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے تفسیر نہیں سنی] لیکن ’’الإتقان في علوم القرآن‘‘ کے ’’النوع الثمانون في طبقات المفسرین‘‘ میں ہے:

"قال قوم: لم یسمع ابن أبي طلحۃ من ابن عباس التفسیر، وإنما أخذہ عن مجاھد أو سعید بن جبیر، قال ابن حجر: بعد أن عرفت الواسطةوھي ثقة، فلا ضیر في ذلک"[4] اھ۔

[ایک جماعت نے کہا کہ ابن ابی طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے تفسیر نہیں سنی۔ اس نے تو صرف مجاہد رحمہ اللہ  یا سعید بن جبیر سے تفسیر اخذ کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے کہا کہ جب ابن ابی طلحہ رحمہ اللہ  اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان موجود واسطے کا علم ہوگیا کہ وہ ثقہ ہے تو پھر ابن ابی طلحہ رحمہ اللہ  کے یہ واسطہ چھوڑ کر بیان کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے]

3۔  مولوی عبد الحی صاحب مرحوم لکھنوی کی کتاب ’’إمام الکلام‘‘ (ص: ۱۱۳ مطبوعہ علوی لکھنو) میں ابن عبد البر کی استذکار سے منقول ہے کہ حدیث (( وإذا قرأ فأنصتوا )) کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے صحیح کہا ہے۔ اُس کی عبارت یہ ہے:

"وقد صحح ھذا اللفظ أحمد بن حنبل، قال أبو بکر الأثرم: قلت لأحمد بن حنبل: من یقول عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  من وجہ صحیح: (( إذا قرأ الإمام فأنصتوا )) قال: حدیث ابن عجلان الذي یرویہ أبو خالد الأحمر، والحدیث الذي رواہ جریر عن التیمي، وقد زعموا أن المعتمر أیضاً رواہ، قلت: نعم، قد رواہ، قال: فأي شيء ترید؟ فقد صحح أحمد ھذین الحدیثین"[5]  اھ۔

[احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے ان الفاظ کو صحیح قرار دیا ہے۔ ابوبکر الاثرم کا کہنا ہے کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس روایت: (( إذا قرأ الإمام فأنصتوا )) کو صحیح سند کے ساتھ کون بیان کرتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ابن عجلان کی وہ حدیث جسے ابو خالد الاحمر روایت کرتا ہے اور وہ حدیث جسے جریر نے تیمی سے روایت کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ معتمر نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ میں نے کہا: ہاں! معتمر نے اسے روایت کیا ہے۔ اس نے کہا کہ پھر تو اور کیا چاہتا ہے؟ کہ یقینا احمد نے ان دو حدیثوں کو صحیح کہا ہے]

4۔  موطا امام محمد (ص: ۹۸ چھاپہ مصطفائی) میں یہ ہے:

"قال محمد: أخبرنا بکیر بن عامر حدثنا إبراھیم النخعي عن علقمة بن قیس قال: لأن أعض علی جمرة، أحب إلي من أن أقرأ خلف الإمام"[6] اھ۔

[محمد رحمہ اللہ  نے کہا کہ ہمیں بکیر بن عامر نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم نخعی نے بیان کیا، وہ علقمہ بن قیس سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں انگارے کو منہ میں رکھ کر چباؤں، مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں امام کے پیچھے قراء ت کروں]

نیز اس میں ہے:

"قال محمد: أخبرنا داود بن قیس الفراء المدني، أخبرني بعض ولد سعد بن أبي وقاص أنہ ذکر لہ أن سعدا قال: وددت أن الذي یقرأ خلف الإمام في فیہ جمرة"[7]

[امام محمد رحمہ اللہ  نے کہا کہ ہمیں داود بن قیس فراء مدنی نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  کے بیٹوں میں سے کسی نے خبر دی، انھوں نے یہ بیان کیا کہ سعد رضی اللہ عنہ  نے کہا: مجھے یہ بات پسند ہے کہ  بلاشبہ وہ شخص جو امام کے پیچھے قراء ت کرتا ہے، اس کے منہ میں آگ کا انگارہ ہو]

"قال محمد: أخبرنا [داود بن قیس الفراء أخبرنا] محمد بن عجلان أن عمر بن الخطاب قال: لیت في فم الذي یقرأ خلف الإمام حجرا"[8]اھ۔

[امام محمد رحمہ اللہ  نے کہا کہ ہمیں داود بن قیس الفراء نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن عجلان نے خبر دی کہ  بلاشبہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ کاش اس شخص کے منہ میں پتھر ہو جو امام کے پیچھے قراء ت کرتا ہے]

مولوی عبد الحی صاحب مرحوم نے حاشیہ موطا میں علقمہ رحمہ اللہ  کے قول کی نسبت یہ لکھا ہے:

’’ھذا تشدید بلیغ علی القراءة خلف الإمام، ولا بد أن یحمل علی القراءة المشوشة لقراءة الإمام، والقراءة المفوتة لاستماعھا، وإلا فھو مردود و مخالف لأقوال جمع من الصحابة والأخبار المرفوعة من تجویز الفاتحة خلف الإمام" [9]اھ۔

[امام کے پیچھے قراء ت کرنے کے بارے میں یہ تشدید بلیغ ہے۔  چنانچہ  لازم ہے کہ اس کو اس قراء ت پر محمول کیا جائے جو امام کے لیے قراء ت کی تشویش کا باعث بنے اور وہ قراء ت جو امام کی قراء ت سے توجہ کو ہٹائے، ورنہ یہ تشدید مردود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی ایک جماعت کے اقوال کی مخالف ہے، نیز یہ ان مرفوع اخبار و احادیث کے بھی خلاف ہے، جو امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کو جائز قرار دیتی ہیں]

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  کے اثر کی نسبت یہ لکھا ہے: "قال ابن عبد البر في الاستذکار: ھذا حدیث منقطع لا یصح" [ابن عبد البر نے ’’الاستذکار‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے صحیح نہیں ہے] عمر رضی اللہ عنہ  کے اثر کی نسبت یہ لکھا ہے:

"یخالفہ ما أخرجہ الطحاوي عن یزید بن شریک أنہ قال: سألت عمر بن الخطاب عن القراءة خلف الإمام، فقال لي: اقرأ، فقلت: وإن کنت خلفک؟ فقال: وإن کنت خلفي، فقلت: وإن قرأت؟ قال: وإن قرأت" [10]اھ۔

[وہ روایت اس کے مخالف ہے جسے امام طحاوی رحمہ اللہ  نے یزید بن شریک سے روایت کیا ہے کہ  بلاشبہ انھوں نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے امام کے پیچھے قراء ت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ پڑھو۔ میں نے پوچھا: اگرچہ میں آپ کے پیچھے ہوں؟ تو انھوں نے کہا کہ اگرچہ تو میرے پیچھے ہو۔ میں نے پھر پوچھا کہ اگرچہ آپ قراء ت کر رہے ہوں؟ انھوں نے کہا کہ اگرچہ میں قراء ت کر رہا ہوں]

5۔  مصنف ابو بکر بن ابی شیبہ یہاں نہیں ہے، لیکن موطا امام محمد میں ابراہیم کا یہ قول منقول ہے:  "إن أول من قرأ خلف الإمام رجل اتھم"[11] اھ۔  [یقینا سب سے پہلے جس شخص نے امام کے پیچھے قراء ت کی ، وہ ایک تہمت زدہ شخص تھا] مولوی عبدالحی صاحب مرحوم نے اس قول کے متعلق دو حاشیے لکھے ہیں، ایک یہ ہے: "قولہ: رجل اتھم۔ قال القاریٔ بصیغة المجھول أي نسب إلی بدعة أو سمعة" اھ۔ [ان کا یہ قول ’’وہ آدمی تہمت زدہ تھا‘‘ علامہ قاری نے کہا ہے کہ یہ مجہول کے صیغے کے ساتھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس آدمی کو بدعت یا ریا کاری کی طرف منسوب کیا گیا تھا] دوسرا یہ ہے: "یشیر إلی أن القراءة خلف الإمام بدعةمحدثة، وفیہ ما فیہ"[12] اھ۔ [یہ قول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام کے پیچھے قراء ت کرنا نئی ایجاد کردہ بدعت ہے لیکن یہ محل نظر ہے]

6۔  علامہ ذہبی رحمہ اللہ  نے میزان الاعتدال میں محمد بن اسحاق کے بارے میں سلیمان تیمی سے کذاب ہونا اور امام مالک سے دجال ہونا نقل کیا ہے۔ میزان الاعتدال (۲/ ۳۴۴) میں ہے:

’’قال سلیمان التیمي: کذاب‘‘ اھ۔ [سلیمان تیمی نے کہا کہ وہ کذاب ہے] نیز اسی میں ہے:

"قال یحییٰ بن آدم: ثنا ابن إدریس قال: کنت عند مالک، فقیل لہ: إن ابن إسحاق یقول: اعرضوا علي علم مالک فإني بیطارہ؟ فقال مالک انظروا إلی دجال من الدجاجلۃ" اھ۔

[یحییٰ بن آدم نے کہا کہ ہمیں ابن ادریس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں امام مالک رحمہ اللہ  کے پاس تھا تو انھیں کہا گیا کہ ابن اسحاق کا کہنا ہے کہ مالک کا علم مجھ پر پیش کرو، میں اس کا معالج (تفتیش کنندہ) ہوں تو امام مالک رحمہ اللہ  نے کہا کہ دجالوں میں سے ایک دجال کو دیکھو]

واضح رہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ  نے میزان میں محمد بن اسحاق کا مفصل اور مبسوط ترجمہ لکھا ہے اور جروح اور تعدیلات جو کچھ ان کی نسبت واقع ہوئے ہیں، ان کو نقل کر کے کل جروح کا جواب دیا ہے اور آخر میں اپنی رائے ان کی نسبت یوں ظاہر کی ہے:

’’فالذي یظھر لي أن ابن إسحاق حسن الحدیث، صالح الحال، صدوق، وما انفرد بہ ففیہ نکارة فإن في حفظہ شیئا، وقد احتج بہ أئمة، فالله أعلم، وقد استشھد مسلم بخمسة أحادیث لابن إسحاق ذکرھا في صحیحہ"[13]اھ۔

[پس مجھے جو بات سمجھ میں آئی ہے، وہ یہ کہ  بلاشبہ ابن اسحاق حسن الحدیث، صالح الحال اور صدوق ہے، جس روایت میں وہ منفرد ہو، اس میں نکارت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے حافظے میں کچھ کمی ہے، ائمہ نے اس سے احتجاج کیا ہے۔ و  الله أعلم۔ امام مسلم رحمہ اللہ  نے پانچ احادیث سے استشہاد کرتے ہوئے اپنی صحیح میں ان کو درج کیا ہے]

مولوی عبدالحی صاحب مرحوم نے "إمام الکلام" میں صفحہ (۱۹۲) سے (۲۰۱) تک علامہ ذہبی رحمہ اللہ  کی کتاب کاشف اور حافظ ابن سید الناس کی کتاب "عیون الأثر" اور حافظ منذری کی کتاب "الترغیب والترہیب"سے محمد بن اسحاق کا مفصل اور مبسوط ترجمہ نقل کیا ہے، جس میں تمام جروح کے اجوبہ شافیہ مذکور ہیں۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ  نے ’’فتح القدیر‘‘ میں متعدد مواضع میں محمد بن اسحاق کی توثیق ثابت کی ہے۔[14]


[1]                میزان الاعتدال (۲/ ۲۰۰) تقریب التھذیب (ص: ۲۵۰) خلاصۃ تذھیب تھذیب الکمال للخزرجي (ص: ۱۵۱)

[2]                تقریب التھذیب (ص: ۴۰۲)

[3]                الخلاصة للخزرجي (ص: ۲۷۵)

[4]              الإتقان في علوم القرآن للسیوطي (۲/ ۴۹۶)

[5]              دیکھیں: الاستذکار (۱/ ۴۶۶) نیز دیکھیں: توضیح الکلام (۲/ ۲۴۹)

[6]                اس اثر کو نقل کرنے والے ’’ محمد بن الحسن الشیباني‘‘ ضعیف ہیں۔ دیکھیں: لسان المیزان (۵/ ۱۲۱)  اسی طرح ’’بکیر بن عامر‘‘ بھی ضعیف ہے اور ابراہیم نخعی کی علقمہ بن قیس سے روایت کے متعلق امام عبد الرحمن بن مہدی فرماتے ہیں: ’’أصحابنا ینکرون أن یکون إبراھیم سمع من علقمة‘‘ (المراسیل لابن أبي حاتم: ۹) نیز دیکھیں: توضیح الکلام (۲/ ۷۵۳)

[7]              موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۴) یہ اثر بھی ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: توضیح الکلام (۲/ ۷۳۸)

[8]              موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۴) یہ ا ثر بھی منکر ہے، جس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔

[9]              التعلیق الممجد علی موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۰)

[10]               التعلیق الممجد علی موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۴)

[11]               موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۱) نیز دیکھیں: مصنف ابن أبي شیبة (۱/ ۳۳۱، ۷/ ۲۵۸) اس اثر پر نقد و تبصرے کے لیے دیکھیں: توضیح الکلام (۲/ ۷۶۵)

[12]               التعلیق الممجد (۱/ ۲۰۱)

[13]               میزان الاعتدال (۳/ ۴۷۵)

[14]             فتح القدیر (۳/ ۱۵۸) مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: توضیح الکلام (۱/ ۲۲۵)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:194

محدث فتویٰ

تبصرے