سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) اذان کی جگہ اور جمعہ کےدن موذنوں کی تعداد

  • 22833
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1792

سوال

(68) اذان کی جگہ اور جمعہ کےدن موذنوں کی تعداد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اذان پنج گانہ مسجد میں کس ہونی چاہیے؟

2۔اذان ثانی جو بروز جمعہ وقت بیٹھنے خطیب کے منبر پر پکاری جاتی ہے،یہ اذان کس جگہ ہونی چاہیے؟آیا مسجد کے اندر خطیب ومنبر کے قریب،جیسا کہ رائج ہے یا مسجد کے باہر اونچی جگہ پر؟

3۔جمعہ کی دونوں اذانوں کے لیے کتنے موذن ہوں؟اس لیے کہ ہدایہ وغیرہا میں"موذنون" بصیغہ جمع آیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1،2

1۔و2۔   اذان پنج گانہ و ہر دو اذانِ جمعہ سنت موکدہ ہیں، بلکہ بعضوں نے اس پر اطلاق واجب کا کیا ہے۔ یہ اذانیں بلند جگہ، یعنی مسجد کے چھت یا منارہ پر ہونا چاہیے، چنانچہ ’’شرعۃ الإسلام‘‘ میں ہے: "ومن سنتہ أن یؤذن في أرفع مکان، فإنہ أمد لصوتہ"

یعنی اذان میں سنت یہ ہے کہ اونچی جگہ پر اذان پکارے، اس لیے کہ اس سے اس کی آواز دور تک جاتی ہے۔ در مختار (۱/ ۳۵۵) میں لکھا ہے:

"ھو لغة: الإعلام، وشرعا: إعلام مخصوص، لم یقل بدخول الوقت، لیعم الفائتۃ، وبین یدي الخطیب علیٰ وجہ مخصوص بألفاظ کذلک أي مخصوصۃ‘‘ انتھی"

[اذان کا لغوی معنی اطلاع دینا ہے اور اس کا شرعی معنی مخصوص (کلماتِ اذان کے ساتھ) اطلاع دینا ہے۔ اس کو دخولِ وقت کے ساتھ خاص نہیں کیا، تاکہ یہ فوت شدہ نماز کی اذان اور خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد اس کے سامنے کھڑے ہو کر مخصوص طریقے اور الفاظ کے ساتھ کہی جانے والی اذان کو بھی شامل ہو جائے]

طحطاوی اور شامی میں ہے: "(قولہ: لیعم الفائتة الخ) أي لیعم الأذان أذان الفائتة والأذان بین یدي الخطیب"[1] انتھی۔ یعنی اذان شامل ہے اذانِ فائتہ [فوت شدہ نماز] کو اور اس اذان کو جو خطیب کے صعودِ منبر کے بعد کہی جاتی ہے۔ پھر در مختار میں لکھا ہے: ’’وھو سنۃ للرجال في مکان عال‘‘[2]اھ [یہ (اذان) مردوں کا کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر کہنا سنت ہے] شامی میں ہے: ’’(قولہ: في مکان عال) في القنیۃ: ویسن الأذان في موضع عال، والإقامۃ علیٰ الأرض‘‘[3] انتھی۔ اور اسی (۱/ ۳۶۰) میں دوسری جگہ لکھا ہے:

"ولم تکن في زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم  مئذنۃ۔ بحر۔ قلت: وفي شرح الشیخ إسماعیل عن الأوائل للسیوطي أن أول من رقي منارۃ مصر للأذان شرحبیل بن عامر المرادي، وبنیٰ مسلمۃ المنائر للأذان بأمر معاویۃ، ولم تکن قبل ذلک، وقال ابن سعد بالسند إلی أم زید بن ثابت: کان بیتي أطول بیت حول المسجد، فکان بلال یؤذن فوقہ من أول ما أذن إلی أن بنی رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  مسجدہ، فکان یؤذن بعد علی ظھر المسجد، وقد رفع لہ شيء فوق ظھرہ‘‘ اھ۔"

یعنی اونچی جگہ پر اذان کہنا سنت ہے اور زمین پر اقامت کہنا اور جس روز سے اذان مسنون ہوئی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ  ام زید بن ثابت کے مکان کے اوپر اذان پکارتے رہے، یہاں تک کہ مسجد نبوی قائم ہوگئی تو مسجد کی چھت پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ  اذان پکارتے تھے اور اس کے لیے مسجد کی چھت پر اونچی جگہ بنا دی گئی۔

طحطاوی میں ہے:

"قال عبد  اللّٰه : فمضیت بعد الانتباہ إلی رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  فأخبرتہ بذلک فقال: رؤیا حق، ألقہ علیٰ بلال، فإنہ أندیٰ منک صوتاً، فألقیتھا علیہ، فقام علیٰ أعلی سطح في المدینۃ فجعل یؤذن"[1]

’’یعنی جس روز حکم اذان کا نازل ہوا، اسی روز حضرت بلال رضی اللہ عنہ  نے مدینہ منورہ کی بڑی اونچی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینا شروع کیا۔‘‘

نیز اسی میں ہے:

"(قولہ: في مکان عال) کالمنارۃ، و أول من أحدثھا مسلمۃ بن مخلد الصحابي، کما في سیرۃ الحلبي، وکان أمیراً علیٰ مصر من طرف معاویۃ اھ۔ أبو السعود"انتھی

[بلند جگہ سے مراد منارہ وغیرہ ہے۔ سیرت حلبی میں ہے کہ سب سے پہلے مسلمہ بن مخلد صحابی نے اذان کے لیے منارہ بنایا۔ موصوف معاویہ رضی اللہ عنہ  کی طرف سے مصر کے امیر تھے]

در مختار (۱/ ۳۵۷) میں ہے: "مؤکدۃ ھي کالواجب في لحوق الاثم للفرائض الخمس" انتھی یعنی اذان سنت موکدہ ہے، یہ سنت مثل واجب کے ہے لحوق اثم میں واسطے فرائض پنج گانہ کے اور اسی میں جمعہ بھی داخل ہے۔ چنانچہ طحطاوی میں ہے: ’’دخلت الجمعۃ۔ حلبی‘‘ شامی میں ہے: ’’دخلت الجمعۃ۔ بحر‘‘[2]یعنی جس طرح اذان پنج گانہ کے لیے سنت موکدہ ہے یا واجب، اسی طرح نمازِ جمعہ کے لیے ہے اور جیسے ان کی اذان اونچی جگہ اور مسجد کی چھت پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ  پکارتے تھے، ویسے ہی جمعہ کی اذان ثانی مسجد کی چھت پر مرفوع مخصوص جگہ پکارتے تھے، اسی لیے صحیح بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ میں ’’مئذنۃ‘‘ مخصوص واسطے اذان ثانی کے مروی نہیں ہے اور نہ "یؤذن علیٰ الأرض داخل المسجد" مروی ہے، البتہ ابو داود میں ’’علیٰ باب المسجد‘‘ مروی ہے،[3] ’’علیٰ‘‘ یا تو استعلاء حقیقی کے لیے یہاں پر ہے: ’’أي علیٰ سطح باب المسجد‘‘ یا واسطے استعلاء مجازی کے ہے، نہ ظرفیت کے اور مراد پیش دروازہ مسجد ہے، جیسے کہ محاورہ اُردو میں بولتے ہیں: فلاں کے دروازے پر جماؤ ہے۔ ابو داود کی روایت میں ’’بین یدي رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہے اور بخاری و ترمذی و ابن ماجہ و نسائی و شافعی کی روایت میں یہ نہیں ہے۔

حالانکہ ان جملہ محدثین نے سائب بن یزید سے اس حدیث کو روایت کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں، یعنی ’’بین یدي رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ اور ’’علی باب المسجد‘‘ ان کے نزدیک پایہ ثبوت و درجہ صحت کو نہیں پہنچا، بدیں وجہ ترک کیا اور ان دونوں میں توافق اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جس وقت مقامِ بیان خطبہ و باب مسجد میں محاذات ہو اور بابِ مسجد کی زمین پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ  اذان پکارتے ہوں، حالانکہ فقہاے حنفیہ مقامِ بلند پر اذان پکارنے اور زمین پر اقامت کہنے کو سنت فرماتے ہیں، اس سے نکلتا ہے کہ زمین پر اذان پکارنا خلافِ سنت ہے اور بدعت ہے۔ امام ابو عبد  الله بن حاج کے قول سے بھی ثبوت بدعت ہوتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی کتاب مدخل میں کہا ہے:

"السنة في أذان الجمعة إذا صعد الإمام علیٰ المنبر أن یکون المؤذن علیٰ المنارۃ، کذلک کان علیٰ عھد النبي صلی اللہ علیہ وسلم  وأبي بکر و عمر و صدرا من خلافة عثمان، وکان المؤذنون ثلاثۃ، یؤذنون واحدا بعد واحد، ثم زاد عثمان أذانا آخر بالزوراء، وھو موضع بالسوق، وأبقیٰ الأذان الذي کان علیٰ عھد النبي صلی اللہ علیہ وسلم  علیٰ المنار، والخطیب علیٰ المنبر إذ ذاک، ثم إنہ لما تولی ھشام بن عبد الملک أخذ الأذان الذي فعلہ عثمان بالزوراء، وجعلہ علیٰ المنار، وکان المؤذن واحدا، یؤذن عند الزوال، ثم نقل الأذان الذي کان علیٰ المنار عند صعود الإمام علیٰ المنبر بین یدیہ، وکانوا یؤذنون ثلاثة، فجعلھم یؤذنون جماعۃ، ویستریحون، فقد بان أن فعل ذلک في المسجد بین یدي الخطیب بدعة، وأن أذانھم جماعۃ بدعۃ أخری، فتمسک بعض الناس بھاتین البدعتین، وھما مما أحدثہ ھشام بن عبد الملک"[1]اھ۔

یعنی جمعہ کی اذان میں جس وقت امام منبر پر چڑھے، سنت یہ ہے کہ اذان منارہ پر ہو۔ اسی طرح زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور زمانہ خلافتِ شیخین و ابتداے خلافتِ عثمان میں تھا۔ میں کہتا ہوں کہ منارے سے مراد وہ جگہ مرتفع ہے جو مسجد نبوی کی چھت پر واسطے اذان بلال رضی اللہ عنہ  کے تیار کر دی گئی تھی، اس لیے کہ زمانہ رسالت و خلافتِ خلفا میں منارہ نہ بنا تھا اور تین موذن تھے کہ ایک کے بعد دوسرا اذان کہتا تھا اور اس کے بعد تیسرا اذان پکارتا تھا۔ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید خلافتِ عثمان رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں تین موذن ہوں، کیونکہ زمانہ رسالت میں ایک موذن تھا۔ ابن ماجہ میں ہے:

"ما کان لرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  إلا مؤذن واحد، إذا خرج أذن، وإذا نزل أقام، و أبوبکر و عمر  رضی اللہ عنہما  کذلک ۔۔۔ الخ"[2]

[رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کا تو ایک ہی موذن تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (خطبہ دینے کے لیے گھر سے) باہر تشریف لاتے (اور منبر پر تشریف رکھتے) تو وہ اذان کہتا اور جب (خطبے سے فارغ ہو کر منبر سے) نیچے اترتے تو وہ اقامت کہہ دیتا۔ سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما  کا معمول بھی یہی تھا]

نسائی میں ہے:

"کان بلال یؤذن إذا جلس رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  علیٰ المنبر یوم الجمعۃ فإذا نزل أقام ثم کان کذلک في زمن أبي بکر و عمر رضی اللہ عنہما"[1]  الخ

[رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  جب جمعے کے دن منبر پر تشریف فرما ہوتے تو بلال رضی اللہ عنہ  اذان کہتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (خطبے سے فارغ ہو کر منبر سے) اترتے تو وہ اقامت کہہ دیتے۔ سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما  کے دور میں بھی یہی معمول رہا]

زمانہ شیخین میں بھی یہی تھا کہ وقتِ جلوس امام علی المنبرایک موذن اذان پکارتا تھا۔ لفظ ’’کذلک‘‘ اس پر دال ہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے دوسری اذان زوراء پر بڑھائی۔ زوراء ایک جگہ کا نام ہے بازارِ مدینہ میں اور بعض نے کہا ہے کہ زَوراء ایک گھر کا نام ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ایک مکانِ مرتفع کا نام ہے مثل منارہ کے تھا اور بعض نے کہا کہ زَوراء ایک بڑے پتھر کا نام ہے، جو مسجد کے دروازے پر تھا، شاید ابو داود کی حدیث میں ’’علیٰ باب المسجد‘‘ سے یہی مراد ہو، باقی رہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے اس اذان کو جو زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  میں منارہ پر ہوتی تھی اور خطیب منبر پر ہوتا تھا، پھر جب ہشام بن عبدالملک والی ہوا تو اس نے اس اذان جس کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے دروازے پر مقرر فرمایا تھا، منارے پر مقرر کیا اور اس کے لیے ایک موذن تھا جو زوال کے وقت اذان کہتا تھا (شیخ دہلوی رحمہ اللہ  مدارج النبوہ میں فرماتے ہیں کہ بعض محققین نے کہا ہے کہ ہشام بن عبدالملک نے اس اذان کو مسجد میں نقل کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پہلے مسجد کے اندر کوئی اذان نہ ہوتی تھی، ہشام نے اس کو نکالا ہے) اور جو اذان منارے پر ہوتی تھی وقت چڑھنے خطیب کے منبر پر اور اس کے لیے تین موذن تھے، اس نے اس اذان کو مسجد کے اندر نقل کیا کہ امام کے سامنے ہو اور بجائے تین موذن کے ایک جماعت کو مقرر کیا کہ ٹھہر ٹھہر کر اذان پکاریں، پس تحقیق ظاہر ہوگیا کہ ہشام کا یہ فعل مسجد میں خطیب کے سامنے ایک بدعت ہے اور ایک جماعت کا اذان دینا دوسری بدعت ہے، پس بعض آدمیوں نے ان دونوں بدعتوں کے ساتھ تمسک پکڑا ہے اور یہ دونوں بدعتیں ہشام بن عبدالملک کی نکالی ہوئی ہیں۔ انتہی

اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:

"من السنۃ الماضیۃ أن یؤذن المؤذن علیٰ المنار، فإن تعذر فعلیٰ سطح المسجد، فإن تعذر فعلیٰ بابہ"[2]اھ۔

یعنی اگلی سنت یہ ہے کہ موذن منارے پر اذان کہے۔ اگر یہ دشوار ہو تو مسجد کی چھت پر، اگر یہ دشوار ہو تو مسجد کے دروازے پر۔

جملہ اخیرہ مطابق حدیث ابو داود کے ہے۔ الحاصل مسجد کے اندر خطیب کے سامنے اذان پکارنا بدعتِ ہشامی ہے، اس کو ترک کر کے مردہ سنت کو زندہ کرنا چاہیے، تاکہ ثواب احیاے سنت پائیں اور قولہ تعالیٰ:﴿لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ﴾ پر عمل کر کے لوگوں کی ملامت کا ڈر نہ رکھیں، فقط و  الله أعلم۔ جواب نمبر  3کا جواب نمبر   2میں آچکا ہے حدیث ابن ماجہ و نسائی میں۔ و  الله أعلم۔    کتبہ: محمد علی اطہر، غفر   الله ولوالدیہ۔

جواب نمبر1 و2   اذان پنج گانہ اونچی جگہ پر ہونی چاہیے، اسی طرح اذان ثانی جو بروز جمعہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جاتی ہے، بلند جگہ ہونی چاہیے، نہ خطیب و منبر کے قریب، جیسا کہ عبارت شرعۃ الاسلام و در مختار و طحطاوی و شامی و مدخل ابن امیر الحاج منقولہ مجیب علام میں مصرح ہے۔ صحیح بخاری (۶/ ۲۵۶) میں ہے:

"عن عائشۃ أن بلالا یؤذن بلیل، فقال رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( کلوا واشربوا حتی یؤذن ابن أم مکتوم، فإنہ لا یؤذن حتی یطلع الفجر )) قال القاسم: ولم یکن بین أذانھما إلا أن یرقیٰ ذا، وینزل ذا"[1]

[عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ  (طلوعِ فجر سے پہلے) رات کو اذان دیتے تھے۔ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ  اذان نہ دیں تم (سحری) کھاتے پیتے رہو۔ وہ (ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ) طلوعِ فجر کے بعد ہی اذان کہتے تھے۔ (راویِ حدیث) قاسم رحمہ اللہ  کا بیان ہے کہ دونوں کی اذان میں اتنا ہی وقفہ ہوتا تھا کہ ایک (اذان دینے کے لیے بلند جگہ پر) چڑھتا تھا اور دوسرا (وہاں سے اذان دے کر) نیچے اترتا تھا]

فتح الباری(۲/ ۸۶) مصری میں ہے:

’’وفي ھذا تقیید لما أطلق في الروایات الأخری من قولہ: (( إن بلالا یؤذن بلیل )) ولا یقال إنہ مرسل، لأن القاسم تابعي، فلم یدرک القصۃ المذکورة لأنہ ثبت عند النسائي من روایة حفص بن غیاث، و عند الطحاوي من روایة یحییٰ بن القطان، کلاھما عن عبد   الله بن عمر، عن القاسم عن عائشة فذکر الحدیث، قالت: لم یکن بینھما إلا أن ینزل ذا ویصعد ذا، وعلی ھذا فمعنیٰ قولہ في روایة البخاري: قال القاسم، أي في روایتہ عن عائشة رضی اللہ عنہا ۔۔۔، وثبتت الزیادۃ أیضا في حدیث أنیسة الذي تقدمت الإشارة إلیہ‘‘

[دوسری روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ قول مطلق بیان ہوا ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ  رات کو اذان کہتے ہیں، جب کہ اس روایت میں اس اطلاق کی تقیید ہے۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ روایت مرسل ہے،  کیونکہ  اس کے راوی قاسم تابعی ہیں اور وہ اس قصے کے عینی شاہد نہیں ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سنن النسائی میں حفص بن غیاث سے اور طحاوی میں یحییٰ بن قطان کے واسطے سے ثابت ہے۔ یہ دونوں عبد  الله بن عمر رضی اللہ عنہما  سے، وہ قاسم سے اور قاسم رحمہ اللہ  عائشہ رضی اللہ عنہا  سے بیان کرتے ہیں۔  چنانچہ  انھوں نے یہ روایت بیان کی، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے کہا کہ ان (دو مؤذنوں) کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہوتا کہ ایک اذان کہہ کر بلند جگہ سے نیچے اترتا اور دوسرا اس پر چڑھ جاتا۔ اس بنیاد پر صحیح بخاری کی روایت میں ان کے قول کا معنی یہ ہوگا کہ قاسم نے عائشہ رضی اللہ عنہا  سے اپنی روایت میں کہا نیز یہ زیادتی انیسہ رضی اللہ عنہا  سے مروی حدیث میں بھی ثابت ہے، جس کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا ہے]

اور بھی فتح الباری (۳/ ۳۴۶) میں ہے:

"روایۃ عروۃ عن امرأۃ من بني النجار قالت: کان بلال یجلس علیٰ بیتي، وھو أعلیٰ بیت في المدینۃ"

[عروہ بنو نجار کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: بلال رضی اللہ عنہ  (اذان کے انتظار میں) میرے گھر کی چھت پر تشریف فرما ہوتے تھے اور وہ گھر مدینے کے گھروں میں سے سب سے اونچا گھر تھا]

اذان اول جو اذان ثانی مذکورہ بالا کے قبل رائج ہے، یہ اذان عہدِ نبوت علی صاحبہا الصلوات التسلیمات و نیز عہدِ خلافت راشدہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما  میں نہ تھی، جو اَب اذان ثانی کہلاتی ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

"عن السائب بن یزید قال: کان النداء یوم الجمعۃ أولہ إذا جلس الإمام علیٰ المنبر علیٰ عھد النبي صلی اللہ علیہ وسلم  وأبي بکر و عمر رضی اللہ عنہما"[1]

[سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی، جب امام منبر پر تشریف فرما ہوتا۔ سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما  کے دور میں بھی یہی معمول رہا]

جواب نمبر  3، جواب نمبر  2سے معلوم ہوچکا ہے کہ وہ جو اذان اول کہلاتی ہے، یعنی خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے قبل کہی جاتی ہے، اس کا وجود عہدِ رسالت علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات اور عہدِ شیخین رضی اللہ عنہما  میں تھا ہی نہیں۔ باقی رہی وہ اذان جو اَب اذانِ ثانی کہلاتی ہے، اس کے لیے موذن کی تعداد بقدر ضرورت ہونی چاہیے۔ اگر ایک موذن سے زیادہ کی ضرورت نہ ہو تو ایک ہی موذن ہونا چاہیے اور اگر آدمی زیادہ ہوں اور ایک موذن کافی نہ ہو تو دو موذن ہوں اور دو موذن بھی کافی نہ ہوں تو تین موذن ہوں۔ علی ہذا القیاس، جس قدر آدمی بڑھتے جائیں اس قدر موذن اور اذانیں بڑھا دی جائیں، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے جب ان کے عہد میں لوگوں کی کثرت ہوئی تو ایک اور اذان بڑھا دی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے قبل حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے بھی بجائے ایک اذان کے کئی اذانیں کر دیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے ایک اذان کی دو اذانیں کر دیں، چنانچہ صحیح بخاری میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

"فلما کان عثمان وکثر الناس، زاد النداء الثالث علیٰ الزوراء"[1]

[جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  کا دورِ خلافت آیا اور لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو انھوں نے تیسری اذان کا اضافہ کر دیا جو ’’زوراء‘‘ مقام پر کھڑے ہو کر کہی جاتی تھی]

نیز صحیح بخاری (۲۸/ ۳۶۴) کی "کتاب المحاربین" میں "باب رجم الحبلیٰ من الزنا إذا أحصنت" میں ہے:

"فجلس عمر علیٰ المنبر فلما سکت المؤذنون، قام فأثنی علیٰ   الله بما ھو أھلہ، ثم قال: أما بعد۔۔۔ الخ"[2]

[عمر رضی اللہ عنہ  منبر پر تشریف فرما ہوتے، جب موذن اذان کہہ کر خاموش ہوگئے تو وہ کھڑے ہوتے،   الله تعالیٰ کے شایانِ شان اس کی ثنا بیان کی اور پھر کہا: أما بعد۔۔۔۔]


[1] ۔حاشیہ رد  المختار(413/1)

[2] ۔الدر المختار(384/1)

[3] ۔رد المختار(384/1)

[4] ۔نیز دیکھیں سنن ابی داود رقم الحدیث(499) سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(706)

[5] ۔رد المختار(184/3)

[6] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(1088) اس کی سند ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں محمد بن اسحاق راوی مدلس ہے۔

[7] ۔المدخل لابن الحاج المالکی(208/2)

[8] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1115)

[9](241/2)

[10] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(870)

[11] ۔مصدر سابق۔

[12] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(6442)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:132

محدث فتویٰ

تبصرے