سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(63) قدیم مسجد کے فرش پر غسل خانہ اور جوتے اتارنے کی جگہ بنانا

  • 22828
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1627

سوال

(63) قدیم مسجد کے فرش پر غسل خانہ اور جوتے اتارنے کی جگہ بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس قصبے میں ایک مسجد چھوٹی سی تھی۔عرصہ پچیس سال کا ہوتاہے کہ مصلیوں کی کثرت کی وجہ سے مسجد بڑھانی پڑی اور پچھم کی طرف مسجد بڑھادی گئی۔مسجد مذکور کے سابق فرش کو دیگر ضروری کاموں کے لیے تجویز کیا گیا اور اس پر غسل خانہ اور وضو کرنے کی اور جوتا نکالنے کی جگہ بنادی گئی۔اب بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قدیم فرش جس پر غسل خانہ اور وضو کرنے کی جگہ ہے وہ مسجد ہے اور اس پر یہ سب کام کرنا ناجائز ہے ۔لہذا سوال ہے کہ فرش قدیم پر یہ سب کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟جواب مدلل ہونا چاہیے۔

نوٹ:۔جگہ بہت تنگ ہے وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ قدیم فرش کو داخل فرش جدید کردیا گیا تو وضو  وغیرہ کے لیے کوئی اور جگہ ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض لوگوں کا جو یہ خیال ہے کہ قدیم فرش پر جس غسل خانہ اور وضو کرنے کی جگہ ہے وہ مسجد ہے اور اس پر یہ سب کام کرنا ناجائز ہے بالکل صحیح خیال ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جو جگہ مسجد ہوگئی،وہ ہمیشہ کے لیے مسجد اور واجب الاحترام ہوگئی اور اس کی مسجدیت کو باطل اور اس کو بے حرمت  کرنے کا کسی کو کسی وقت بھی اختیار نہیں رہا۔ورنہ یہ جائز ہوگا کہ آج جو مسجد ہے کل اس کو کوئی استنجا خانہ یا پائخانہ بنائے اور یہ بھی جائزہوگا کہ حائض اور جنب اس میں داخل ہوں اور یہ بھی جائز ہوگا کہ جس مسجد سے جس نمازی کو جب چاہے نماز پڑھنے سے روک دے اور یہ فعل ظلم قرار نہ پائے۔حالانکہ یہ سارے امور ناجائز ہیں۔مسجد واجب الاحترام ہے اور فعل مذکور(نمازی کومسجد میں نماز خوانی سے روک دینا) سخت ظلم ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

﴿وَمَن أَظلَمُ مِمَّن مَنَعَ مَسـٰجِدَ اللَّهِ أَن يُذكَرَ فيهَا اسمُهُ...﴿١١٤﴾... سورة البقرة

’’اوراس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے منع کرے کہ ان میں اس کانام لیا جائے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مرفوعاً روایت ہے:

"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ ، وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ"[1](رواہ احمد وابوداود والترمذي وصحح ارسالہ)

’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے گھروں میں مسجدیں بنانے،انھیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبودار بنانے کا حکم دیاہے۔‘‘

نیز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے مرفوعاً مروی ہے۔

"البصاق في المسجد خطيته وكفار تها دفنها(متفق علیه)[2]

’’مسجد میں تھوکنا گنا ہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا ہے۔‘‘

سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔

"عرضت علي اجور امتي حتي القذاة يخرجها الرجل من المسجد" (رواہ ابوداؤد والترمذي واستغفرہ وصححہ ابن خذیمة)[3]

’’میرے اوپر میری امت کے اجر وثواب پیش کیے گئے حتیٰ کہ وہ تنکا بھی جو آدمی مسجد سے نکال دیتا ہے۔‘‘


[1] ۔مسند احمد(279/6) سنن ابی داود رقم الحدیث(455) سنن ترمذی رقم الحدیث(594) سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (758) نیز دیکھیں۔الثمر المستطاب للابانی(ص:447)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(405) صحیح مسلم رقم الحدیث(552) یہ حدیث سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن مالک سے مروی ہے۔

[3] ۔سنن ابوداود رقم الحدیث(461) سنن ترمذی رقم الحدیث(2916) اس کی سند میں انقطاع ہے لہذا یہ حدیث ضعیف ہے البتہ صحیح مسلم(553) میں ایک حدیث بایں الفاظ مروی ہے:

"عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَ سَيِّئُهَا  فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنْ الطَّرِيقِ  وَ وَجَدْتُ فِي مَسَاوِئ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ"

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:128

محدث فتویٰ

تبصرے