سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) قبریں گرا کر جگہ کو مسجد میں شامل کرنا

  • 22822
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1229

سوال

(57) قبریں گرا کر جگہ کو مسجد میں شامل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمبر1۔اے علمائے کرام!ایسی مسجد کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے،جو محلے والوں کے لیے تنگ ہوگئی ہے اور مسجد کی مشرقی جانب اس کے صحن سے متصل ہی چار پرانی قبریں ہیں پس مسجد کے ہمسائے چاہتے ہیں کہ قبروں کو مسجد میں داخل کردیں،تاکہ مسجد وسیع ہوجائے؟کیا یہ جائز  ہے یا نہیں؟

سوال۔2۔کیا مدینہ منورہ کی مسجد(مسجد نبوی) مشرکوں کی قبروں پر بنائی گئی تھی یا نہیں؟

سوال۔3۔اسماعیل علیہ السلام   کی قبر کہاں ہے؟کیا وہ حطیم سے متصل پرنالے کے نیچے ہے یا نہیں؟کیا لوگ ان کی قبر پر نماز پڑھتے ہیں؟

سوال۔4۔کیا کسی دینی ضرورت کے پیش نظر قبروں کو اکھاڑنا جائز ہے یا نہیں؟دلیل کے ساتھ بیان کریں اور اللہ تعالیٰ سےاجر جزیل کے حق دار بنیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔اگر مذکور بالا قبریں مشرکوں کی ہیں تو ان قبروں کو اکھاڑنے اور ان سے مشرکوں کی ہڈیاں نکالنے کے بع وہاں مسجد بنانا جائز ہے لیکن اگر وہ مسلمانوں کی قبریں ہیں تو پھر یہ عمل ناجائز ہے۔چناں چہ صحیح بخاری میں باب ہے  کہ کیامشرکین جاہلیت کی قبور کو اکھاڑنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:اللہ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے نبیوں علیہ السلام   کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا تھا۔فتح الباری میں ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وعید ان کو شامل ہے۔جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا کہ ان کو اکھاڑ کر اور ان کی ہڈیوں کو نکال کر انھیں پھینک دیا۔یہ انبیاء علیہ السلام   کے ساتھ خاص ہے اور ان کے پیروکاروں کی قبروں کا بھی یہی حکم ہے لیکن کفار کی قبروں کو اکھاڑنے میں کوئی گناہ نہیں،کیوں کہ ان کی اہانت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

2۔ہاں،مسجد نبوی مشرکین کی قبور پر بنائی گئی تھی،لیکن ان کو اکھاڑ کر وہاں سے ان کی ہڈیاں نکال دی گئی تھیں۔چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا:پس اس میں(جس باغ والی جگہ پر مسجد بنائی گئی تھی) وہ کچھ تھا،جومیں تمھیں بتانے لگا ہوں: مشرکین کی قبریں،کھنڈر اور کھجوروں کے درخت،پس ر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مشرکین کی قبروں کے متعلق حکم دیا تو انھیں اکھیڑ دیا گیا،کھنڈر برابر کردیے گئے،کھجوریں کاٹ دی گئیں اور ان کے تنوں کو قبلہ رخ قطار سے رکھ دیاگیا اور دروازے کے دونوں کنارے  پتھروں سے چنے گئے۔اس حدیث سے مشرکین کی قبریں اُکھاڑنے اور ان کی ہڈیاں نکالنے کے بعد وہاں نماز پڑھنا اور اس مقام پر مسجد بنانا جائز معلوم ہوتاہے۔

3۔مروی ہے کہ اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ دونوں کی قبر حطیم میں ہے،بلکہ یہ بھی مروی ہے کہ مقام ابراہیم،حجر اسود،چاہ زمزم اور حطیم کے درمیان ستتر(77) نبیوں کی قبریں ہیں۔مزید برآں مروی ہے کہ مکے میں نوح،ہود،صالح اور شعیب فوت ہوئے اور ان کی قبریں زمزم اور حطیم کے درمیان ہیں۔یہ تمام   روایات سیوطی نے در منشور میں ذکر کی ہیں،لیکن ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں۔

4۔ہاں،جائز ہے،اگر وہ مشرکین کی قبریں ہیں،جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے سوال کیے جواب میں گزر چکی ہے۔(کتبہ:12 شوال 1331ھ)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:120

محدث فتویٰ

تبصرے