سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) قبرستان کے ساتھ خالی جگہ پر مسجد تعمیر کرنا

  • 22819
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1220

سوال

(54) قبرستان کے ساتھ خالی جگہ پر مسجد تعمیر کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عام قبرستانوں میں مسجد بنانے اور نیچے جو نقشہ قبرستان کا ہے،اس خالی جگہ مسجد بنانی حدیث وشرع کی کتابوں میں جائز ہے یا نہیں؟(السائل:میراسماعیل بخاری۔چھاونی بنگلور،قاضی محلہ(5/رجب المرجب 1311ھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث شریف میں اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ قبروں کو مسجد بنانا یا قبروں پرمسجد بنانا جائز نہیں ہے۔[1]

اسی طرح قبر کی طرف نماز پڑھنا یعنی نمازی کے آگے قبر ہو اور نمازی اور قبر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو،یہ بھی جائز نہیں ہے۔[2] اسی طرح قبرستان میں نماز پڑھنا بھی ناجائز ہے۔[3]

نقشہ قبرستان مندرجہ استفتاء میں جوخالی جگہ ہے،جس میں قبر نہیں ہے،اس جگہ مسجد بنانے کی ناجوازی حدیث شریف میں ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ جب وہ جگہ قبر سےخالی ہے اور قبروں سے علیحدہ واقع ہوئی ہے تو اس جگہ مسجد بنانے پر نہ یہ صادق آیا کہ قبر کو مسجد بنایا اور نہ یہ صادق آیا کہ قبر پر مسجد بنائی اور نہ اس جگہ مسجد بنا کر اس  میں نماز پڑھنے پر یہ صادق آیا کہ قبر کی طرف نماز پڑھی اور نہ یہ صادق آیا کہ قبرستان میں نماز پڑھی،کیونکہ وہ جگہ قبرستان سے علیحدہ واقع ہوئی ہے،بہرکیف اس جگہ مسجد بنانے کی ناجوازی حدیث  شریف سے ثابت نہیں ہوتی۔الفاظ حدیث کے یہ ہیں:

عن عائشة ان رسو الله صلي الله عليه وسلم   قال :لعن اللهُ اليهود والنّصارى اتّخذوا قبور أنبيائهم مساجد(متفق علیه)[4]

’’عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’اللہ یہودونصاریٰ پر لعنت فرمائے،انھوں نے اپنے انبیاء علیہ السلام   کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘

"سمعت النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن يموت بخمسٍ وهو يقول: ((ألا وإنَّ من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد، ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنهاكم عن ذلك"(رواہ مسلم)[5]

جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:’’سن لو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء علیہ السلام    اور اپنے صالح افراد کی قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا،بے شک میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

"عن ابن عباس قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم زائرات القبور والمتخذات عليها المساجد والسرج"(رواہ ابو داود والترمذی والنسائی مشکوۃ شریف باب المساجد ومواضع الصلاۃ)[6]

’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں اور ان پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔‘‘

وعن ابي مرثد  الغنوي قال قال رسو الله صلي الله عليه وسلم لا تجلسواعلي القبور  ولا تصلوا اليها(مسلم شریف:1/412)

ابو مرثد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:’’قبروں پر(مجاور بن کر) بیٹھو نہ ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو۔‘‘

وعن ابن عمر رضي الله  تعالي عنه قال:نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم ان يصلي في سبعة مواطن في المزيلة والمجزرة والمقبرة...الحديث"(مشکوة شریف باب مذکور ص:71)[7]

’’سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سات جگہوں ،کوڑے کرکٹ کے ڈھیر،ذبح خانہ قبرستان۔۔۔پرنماز پڑھنے سے منع فرمایا‘‘

فتح القدیر (1/178) میں ہے:

"يكره ان يكون قبلة المسجد الي حمام اومخرج اوقبر فان كان  بينه وبين هذه حائل حائط لا يكره"[8]

’’مسجد کے قبلے کا غسل خانے یا گزرگاہ یا قبر کی طرف ہونا مکروہ ہے لیکن اگر ان کے درمیان ایک دیوار حائل ہو تو پھر مکروہ نہیں۔‘‘

شامی(945/1) مطبوعہ مصر میں ہے:

"نكره الصلاة عليه(اي علي القبر)لورود النهي عن ذلك ...[9]

قبر پر نماز پڑھنا مکروہ ہے کیوں کہ اس کے متعلق  ممانعت مروی ہے۔

نیز شامی(1/394) میں ہے:

"ولاباس بالصلاة فيها(اي في المقبرة) اذاكان فيها موضع اعد للصلاة وليس فيه قبر ولا نجاسة"[10]

"قبرستان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اگر اس میں نماز کے لیے کوئی ایسی جگہ تیار کی گئی ہوجس میں قبر اورنجاست نہ ہو۔"


[1] ۔صحیح البخاری  رقم الحدیث(425) صحیح مسلم رقم الحدیث(531)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (972)

[3] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث (492) نیز  دیکھیں ارواء الغلیل (320/1)

[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4443) صحیح مسلم رقم الحدیث(548)

[5] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(532)

[6] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(3236) سنن الترمذی رقم الحدیث(320) سنن النسائی ر قم الحدیث(2045) مشکاۃ المصابیح (1/163) اس کی سند میں ابو صالح باذام راوی ضعیف ہے۔

[7] ۔سنن الترمذی ر قم الحدیث(346) سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(746) اس کی سند میں"زید بن جبیرہ"راوی متروک اور سخت ضعیف ہے۔

[8] ۔فتح القدیر(418/1)

[9] ۔ردالمختار(265/2)

[10] ۔رد المختار(410/1)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:116

محدث فتویٰ

تبصرے