سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) اختلاف کی صورت میں الگ مسجد بنانے کا حکم

  • 22817
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 779

سوال

(52) اختلاف کی صورت میں الگ مسجد بنانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک پرانی مسجد میں محمدی اور حنفی دونوں فریق مدت دراز سے ایک ساتھ مل کر نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن اب بعض ان میں سے جو حنفی ہیں، باشتعال پیر اپنے کے (کہ محمدی لوگ لا مذہب ہیں اور لامذہبوں کے پیچھے نماز درست نہیں، ایک نئی مسجد بنانی چاہیے کہ جس میں محمدیوں کی جماعت کم و کمزور ہو جائے اور ہماری حنفی جماعت رفتہ رفتہ ترقی پائے اس ارادے سے) ایک نئی مسجد بنائی ہے اور بانی و متولی اس نئی مسجد کا ایک متمول شخص ہے، جو محمدی جماعت کو توڑنے کے لیے کمزور محمدیوں کو ورغلا رہا ہے اور جن محمدیوں سے اس کی لین دَین ہے اور جو لوگ اس کی رعیت ہیں، ان پر اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تنبیہ اور سختی کر رہا ہے، ان صورتوں میں اس نئی مسجد میں نماز پڑھنی شرعاً جائز ہے یا نہیں اور اس مسجد کا کیا حکم ہے اور اس صفت کے مفرقینِ جماعت اور اس مسجد کے مصلیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سلام مصافحہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب ایک مسجد خوش نیتی سے بن چکی ہو، جس میں جماعت قائم ہو اور مسلمانان اس میں خدائے تعالیٰ کی عبادت میں مل جل کر مشغول رہے ہوں، اس کے بعد پھر کوئی دوسری مسجد اس غرض سے بنائی جائے کہ مسلمانوں کو اس سے ضرر پہنچایا جائے یا اس میں کفر کے کام کیے جائیں یا مسلمانوں کی جماعت متفرق کی جائے، یا جو لوگ   الله و رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے لڑ رہے ہوں، ان کے لیے وہ گھات بنے تو اس مسجد میں نماز پڑھنی جائز نہیں ہے اور نہ ایسی مسجد شرعاً مسجد کا حکم رکھتی ہے۔

سورۃ توبہ رکوع (۱۳) میں   الله تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًام بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ﴾ التوبة: ﴿١٠٧، ﴿١٠٨]

[اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے   الله اور اس کے رسول سے جنگ کی اور یقینا وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا ارادہ نہیں کیا اور   الله شہادت دیتا ہے کہ بے شک وہ یقینا جھوٹے ہیں۔ اس میں کبھی کھڑے نہ ہونا۔ یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوے پر رکھی گئی زیادہ حق دار ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو]

مسلمان پرہیز گاروں کو فاسق وبدعتیوں سے مواکلت ومشاربت وغیرہ ہربات میں جدا رہناشرعاً لازم ہے۔یا نہیں؟درصورت اول چونکہ  فاسق بدعتیوں کے پ پیچھے نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں،اس غرض سے ان مسلمان پرہیز گاروں کو دوسری مسجد بنا کر نماز جمعہ وغیرہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں اور یہ مسجد حکم سے مسجد ضرار کے خارج ہے یا نہیں؟

مسلمان پرہیز گاروں کو فاسق وبدعتیوں سے مواکلت ومشاربت ودیگر امور میں جدا رہنا شرعاً لازم ہے،جس صورت میں کہ امور مذکورہ میں شریک ہونے سے ان کے فسق وفجور بدعات میں شرکت یا رضا مندی لازم آتی ہے۔

فاسق اور بدعتیوں کو امام بنانا ناجائز ہے۔لیکن اگر وہ امام بن گئے ہوں تو ان کو نماز پڑھ لینا چاہیے تفریق جماعت نہیں کرنا چاہیے۔اور نہ اس غرض سے دوسری مسجد بنانا چاہیے ورنہ یہ دوسری مسجد ،مسجد ضرار کے حکم میں ہوجائے گی،کیونکہ اس مسجد پر یہ صادق آجائے گا کہ تفریق بین المومنین کی غرض سے بنائی گئی ہے۔

﴿وَإِذا رَأَيتَ الَّذينَ يَخوضونَ فى ءايـٰتِنا فَأَعرِض عَنهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ ...﴿٦٨﴾... سورة الانعام

’’اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں(فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر،یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں۔‘‘

﴿وَقَد نَزَّلَ عَلَيكُم فِى الكِتـٰبِ أَن إِذا سَمِعتُم ءايـٰتِ اللَّهِ يُكفَرُ بِها وَيُستَهزَأُ بِها فَلا تَقعُدوا مَعَهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ إِنَّكُم إِذًا مِثلُهُم ...﴿١٤٠﴾... سورة النساء

’’اور بلاشبہ اس نے تم پر کتاب میں نازل فرمایاہے کہ جب تم اللہ کی آیات کو سنو کہ ان کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے توان کے ساتھ مت بیٹھو،یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں۔بے شک تم بھی اس وقت ان جیسے ہو۔‘‘

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ...﴿٢﴾... سورة المائدة

’’اور نیکی اور تقوے پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

﴿وَاركَعوا مَعَ الرّ‌ٰكِعينَ ﴿٤٣﴾... سورة البقرة

’’اوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘

صحیح بخاری"باب امامة المفتون والمبتد(3/388)  میں ہے:

"وقال الحسن :صل وعليه بدعته قال أبو عبد الله وقال لنا محمد بن يوسف قال حدثنا الأوزاعي قال حدثنا الزهري عن حميد بن عبد الرحمن عن عبيد الله بن عدي بن خيار أنه دخل على عثمان بن عفان رضي الله عنه وهو محصور فقال إنك إمام عامة ونزل بك ما ترى ويصلي لنا إمام فتنة ونتحرج فقال" ((الصلاة أحسن ما يعمل الناس؛ فإذا أحسن الناس، فأحسن معهم، وإذا أساؤا فاجتنب إساءتهم"وقال الزبيدي قال الزهري لا نري ان يصلي خلف المخنث الا من ضرورة لا بدمنها [1]والله تعالي اعلم

’’حسن رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ تم(اس کی اقتدا میں) نماز پڑھو،اس کی بدعت اس کے ذمے ہے ۔ابو عبداللہ نے کہاکہ ہمیں محمد بن یوسف نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اوزاعی نے بیان کیا،انھوں نے کہا کہ ہمیں زہری نے بیان کیا،وہ حمید بن عبدالرحمان سے اور وہ عبیداللہ بن عدی بن خیار سے بیان کرتے ہیں کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس اس وقت گئے جب وہ اپنے گھر میں مصور تھے ،انھوں نے کہا کہ آپ تو لوگوں کے امام ہیں اور آپ اس  صورت حال میں گرے ہوئے ہیں،جو آپ کے سامنے ہے،ہمیں امام فتنہ نماز   پڑھاتا ہے ہم اس میں حرج محسوس کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ نماز وہ سب سے احسن کام ہے جس پر لوگ عمل کرتے ہیں لہذا جب لوگ اچھا کام کریں توتم بھی ان کے ساتھ اچھائی کرو اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے اجتناب کرو۔زبیدی رحمۃ اللہ علیہ  کا بیان ہےکہ  زہری رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ ہم مخنث کی اقتدا میں نماز ادا کرنا جائز نہیں سمجھتے الا یہ کہ کوئی ایسی  ضرورت ہو جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔‘‘


[1] ۔صحیح البخاری  رقم الحدیث (663)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:112

محدث فتویٰ

تبصرے