"اے لوگو جو ایمان لائے ہو!جب تم نماز کے لیے اٹھوتو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک(دھو لو)
صاحب الوحی علیہ السلام نے پیر کا دھونا ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ قاعدہ نحو سے مفہوم ہوتا ہے یا پیر کامسح کرنا؟نیز کیا کوئی حدیث صحیح صحاح اہل سنت وجماعت سے بجائے پیر دھونے کے مسح کرنے کے متعلق ثابت ہوئی ہے یا نہیں؟
حضرت صاحب الوحی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کا دھونا ارشاد فرمایا ہے اور خود بھی برابر پیر دھویا ہے احادیث صحیحہ اس باب میں بکثرت واردہیں۔بلکہ تواتر کی حد کو پہنچ گئی ہیں اور کسی حدیث صحیح صحاح اہل سنت وجماعت سے بجائے پیر دھونے کے ،مسح کرنا ثابت نہیں ہواہے۔
صحیح بخاری مع فتح الباری(1/1133) چھاپہ دہلی میں ہے:
پاؤں کو دھونے اور قدموں پر مسح نہ کرنے کا بیان۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے تو ہمیں اس وقت ملے،جب نماز کا وقت تھوڑا ہی رہ گیا اور ہم وضو کررہے تھے تو ہم اپنے پاؤں کو تھوڑا تھوڑا مسح کرنے کی طرح دھو رہے تھے ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا:ایڑھیوں کے لیے جہنم سے ہلاکت ہے یعنی پاؤں کو اچھی طرح دھویا کرو۔