سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(253) دھوپ میں رکھے ہوئے پانی کا حکم

  • 22798
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1567

سوال

(253) دھوپ میں رکھے ہوئے پانی کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دھوپ میں رکھا ہوا پانی وضو اور غسل میں استعمال کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضو اور غسل میں اس کا ستعمال بلا کراہیت جائز ہے چنانچہ میزان شعرانی میں ہے۔

ومن ذلك قول الائمة الثلاثة بعدم كراهة استعمال الماء المشمس في الطهارة مع الاصح من مذهب الشافعي من كراهية استعماله فالاول مخفف والثاني مشدد فرجع الي مرتبتي الميزان ووجه الاول عدم صحة دليل فيه فلوانه كان يضر الامة لبينه لهم رسول الله صلي الله عليه وسلم ولو في حديث واحد اما والاثر في ذلك عن عمر رضي الله عه فضعيف جدا فبقي الامر فيه علي الاباحة[1]

(اس سلسلے میں آئمہ ثلاثہ کا مذہب یہ ہے کہ طہارت کے لیے ماے مشمس (دھوپ میں گرم ہونے والاپانی )کا استعمال مکروہ نہیں ہے جب کہ صحیح قول کے مطابق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ایسے پانی کے استعمال کی کراہیت کے قائل ہیں ۔پہلے قول میں آسانی ہے جب کہ دوسرے قول میں شدت پائی جاتی ہے پہلےقول کی بنیاد یہ ہے کہ اس پانی کے استعمال میں کراہیت کی کوئی صحیح دلیل ثابت نہیں ہے تو یہ دونوں ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکھے جائیں گے۔ اگر ایسا پانی نقصان دہ ہوتا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی وضاحت فرمادیتے چاہے کسی ایک حدیث ہی میں سہی اور اس کے متعلق میں جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اثر مروی ہے وہ انتہائی ضعیف ہے۔لہٰذاثابت ہوا کہ ایسا پانی استعمال کرنا مباح اور جائز ہے)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ بحکم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے پانی کو تاب آفتاب میں گرم ہونے کو رکھا واسطے غسل آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ۔(واللہ اعلم)کتبہ : محمد علی اطہر ،غفراللہ لہ ولو الدیہ

اس بارے میں کہ دھوپ میں رکھا ہوا پانی وضو اور غسل میں استعمال کرنا چاہیے یا نہیں ؟کوئی صحیح حدیث معلوم نہیں ہوتی ہاں اگر طبی پر اس پانی کا استعمال مضر ثابت ہوتو اس کا استعمال ناجائز ہو گا ورنہ جائز ۔(واللہ تعالیٰ اعلم)


[1] ۔المیزان للشیرانی(331/1)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05

تبصرے