سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(332) مسئلہ امامت و بیعت؟

  • 22780
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 748

سوال

(332) مسئلہ امامت و بیعت؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل میں:

1۔متعدد مواضع کے لوگوں نے ایک عالم متدین کو پسند کر کے اسلامی امور کے بندوبست کے لیے اس کے ہاتھ پر بطوع خاطر بیعت کی اور چند مدت تک تابع داری کرتے آئے۔اب بعض لوگوں کے اغوا سے بجزم ایں کہ متبوع حقہ نوش وغیرہ کے مکان میں ضیافت کھاتا ہے لہٰذابیعت سابقہ توڑ کر دوسرے عالم کے ہاتھ پر کریں تو یہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟

2۔ جو لوگ جدوجہد سے لوگوں کو بیعت سابقہ توڑنے کی فتنہ میں ڈالے اور اغوا سے جماعت مستقرہ میں یہ فساد ڈال کر آپس کی اصلاح توڑنے کو براانگیختہ کریں تو یہ لوگ کیسے ہیں اور شرعاً یہ کاروائی جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب سوال اول:۔

جب  ایک یا کئی بستی والے مسلمان ،رعایا غیر حکام اسلام،کسی مسلمان کو علمائے متدینین سے اپنے لیے والی بنا دیں تاکہ ان کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرے اور ان میں جمعہ ،جماعات واعیاد وغیرہ احکام شرعیہ قائم کرے کہ جن کی حکام وقت مزاحمت نہیں کرتے اور بیعت کریں  اس سے اس امر پر کہ اس میں نافرمانی نہیں کریں گے اور اقرار کرلیں اپنی جانوں پر اس طرح کی تولیت بلاشک جائز ہے،بلکہ واجب ہے ہران عدد پر کہ تین یازائد کو پہنچ جائیں کہ ایک کو اپنے لیے ان میں سے والی بنادیں،اس وجہ سے کہ تفریق شرعا م منہی عنہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

" وَلَا تَفَرَّقُوا"(یعنی  فرقہ فرقہ مت ہوجاؤ)

لہذا اجتماع ضروری ہے اور بلا ناظم ووالی کے یہ انتظام واجتماع حاصل نہیں ہوسکتا۔بدیں وجہ انتظام ناظم و تولیت والی ضروری ہے تحقیق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جب کہ تین ہوں سفر میں تو ان کو چاہیے کہ ایک کو ان میں سے امیر بنائیں ۔ جب یہ امیر بنانا تین مسافروں کے لیے واجب ہوا تو پھر وجوب اس کا ان سے زائد پر بہت ہی لائق و اولیٰ ہوا۔ پھر جب وہ اس کو اولیٰ اپنے نفسوں پر قرار دے چکے ہیں اب ان کے واسطے جائز نہیں کہ اس کو معزول کردیں یا اس کی بیعت اتاردیں اور اس کی اطاعت سے نکل جائیں اگر چہ اس کو کسی شے کا معصیت خدا سے مرتکب دیکھیں ۔ جب تک وہ ان میں نماز قائم کرتا رہے۔

ہاں البتہ واجب ہے ان پر کہ براجانے اس امر کو جو وہ معصیت خدا کرتا ہے بدلیل فرمان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کہ بہتر امام تمھارے وہ ہیں جو تمھیں دوست رکھیں اور تم ان کو دوست رکھو اور تم دعا کرو ان کے حق میں اور وہ دعا کریں تمھارے حق میں اور بدتر امام تمھارے وہ ہیں جو تم کو مبعوض جانیں اور تم ان کو جانو، وہ تم پر لعنت برسائیں اور تم ان پر لعنت برساؤ۔ ہم نے کہا : اے رسول خدا !کیا ہم ایسے موقع پر ان کی بیعت و عہدان کی طرف ڈال نہ دیں؟فرمایا: نہیں ! جب تک وہ تم میں نماز قائم رکھیں خبردار !جس شخص پر کوئی والی ہو اور اس کو معصیت خدا کا مرتکب دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اسی معصیت خدا ہی کو برا جانے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔

اس سے واضح ہو گیا کہ وہ امور جو سوال میں مذکور ہیں مثل تنباک وغیرہ پینے والے کے ساتھ والی کا ملنا تو ان میں ایسا کوئی امر نہیں ہے کہ جس کے سبب سے اس کا معزول کرنا یا اس کی بیعت توڑدینا یا اس کی اطاعت سے خارج ہونا جائز ہو چہ جائے کہ ان پر اس کو واجب قراردیا جائے کیوں کہ سوال میں مذکورہ بالا امور میں ترک اقامت صلاۃ نہیں ہےجو اس کے جواز کی شرط ہے واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

جواب سوال ثانی:۔

بیعت ثانیہ کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر گز جائز نہیں چوں کہ اس سے تفریق اور بے وفائی لازم آتی ہے لہٰذا یہ دونوں جائز نہیں جیسا کہ گزر چکا اور عنقریب آتا ہے نیز حکم اس امر میں کوشش کرنے والوں کایہ ہے کہ وہ ناجائز امر مثل تفریق و بے وفائی میں سعی کرنے والے ہیں لہٰذا وہ عاصی ٹھہرے اسی طرح سے حکم مولوی صاحب مذکورکا (جو سوال میں واقع ہوئے ہیں)اور حکم اس جماعت کا جو طاعت والی اول سے خارج ہو بیٹھی ہے بے وفا ہیں اور بے وفائی نفاق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے اور کبیر ہ گنا ہے۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: چار چیزیں ہیں جن میں وہ ہوں وہ خالص منافق ہو تا ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو۔ اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے حتی کہ وہ اس کو ترک کردے ۔

1۔امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

2۔جب باتیں کرے تو جھوٹی کرے۔

3۔جب عہد و پیمان کرے تو بے وفائی کرئے۔

4۔جب جھگڑا کرے تو فحش بکے۔"نیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہر بے وفا کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہو گا کہ وہ اس کی وجہ سے پہچانا جائے گا۔

امام مسلم نے بروایت ابو سعید نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نقل کیا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ہر بےوفا کے لیے قیامت کے دن اس کے چوتڑوں کے پاس جھنڈا ہو گا (مشکاۃ )

یہاں سب پر واجب ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف جھکیں اور تمام ان چیزوں سے کہ جن کے وہ مرتکب ہوئے ہیں مثل بے وفائی وسعی فی الفساد وغیرہ کے توبہ کرلیں فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"کہو اے بندو میرے جنھوں نے زیادتی کی اوپر جانوں اپنی کے!مت ناامید ہو رحمت اللہ کی سے تحقیق اللہ بخشتا ہے گناہ سارے تحقیق وہی بخشنے والا مہر بان ہے اور رجوع کرو طرف پروردگار اپنے کے اور مطیع رہو واسطے اس کے پہلے اس کے کہ آئے تم کو عذاب پھر نہ مدد کیے جاؤ گے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

تبصرے