سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(2) برتنوں اور کافروں کے کپڑوں کے احکام

  • 22764
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1878

سوال

(2) برتنوں اور کافروں کے کپڑوں کے احکام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برتنوں اور کافروں کے کپڑوں کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہاں برتنوں سے مراد ایسے برتن ہیں جو کھانے اور پانی وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ لوہے کے ہوں یا لکڑی کے چمڑے کے ہوں یا کسی اور دھات سے بنےہوں برتنوں کے استعمال میں اصل حکم ان کے جواز کا ہے لہٰذا ہر وہ برتن جو پاک صاف ہو اس کا استعمال جائز ہے البتہ درج ذیل برتنوں کا استعمال حرام ہے:

وہ برتن جوخالص سونے یا چاندی کے بنے ہوں یا ان میں سونے چاندی کی ملاوٹ ہو یا ان پر ان میں سے کسی ایک دھات کی پالش وغیرہ ہو۔ ہاں اگر کسی ٹوٹے ہوئے برتن کو سونے یا چاندی کے تار کے ذریعے سے جوڑ دیا گیا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ سونے اور چاندی کے برتنوں کے استعمال کی حرمت کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"لا تشربوا في آنية الذهب والفضة، ولا تأكلوا في صحافهما؛ فإنها لهم في الدنيا، ولكم في الآخرة "

"سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو اور نہ ان کی پلیٹوں میں کھاؤ کیونکہ یہ چیزیں ان(کافروں) کے لیے دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔"[1]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا:

"الَّذِي يَشْرَبُ فِي إِنَاءِ الْفِضَّةِ إِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِي بَطْنِهِ نَارَ جَهَنَّمَ"

"جو شخص چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے تو وہ یقیناً اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔"[2]

برتن مکمل طور پر خالص سونے یا چاندی سے بنا ہو یا اس میں ان دھاتوں کی ملاوٹ ہو یا ان کی پالش ہوتو (جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے) بہر صورت اس کا استعمال ممنوع ہے البتہ ٹوٹے ہوئے برتن کو قابل استعمال بنانے کے لیے اسے سونے چاندی کے تارسے جوڑ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔اس بارے میں سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں:

"أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - اِنْكَسَرَ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ"

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چاندی کے تارسے اسے جوڑ لیا۔"[3]

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا یا کسی بھی صورت میں ان کا استعمال بالا تفاق حرام ہے۔"[4]

حرمت استعمال کا یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو ہے کیونکہ نہی میں عموم ہے عورتوں کو مستثنیٰ کرنے کی کوئی دلیل نہیں البتہ وہ اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لیے زیور کی شکل میں سونا چاندی استعمال کر سکتی ہیں۔

مسلمانوں کے لیے کافروں کے برتنوں کا استعمال جائز اور مباح ہے بشرطیکہ ان پر نجاست وغیرہ نہ لگی ہوئی ہو۔ اگر کسی قسم کی نجاست محسوس ہو تو انھیں اچھی طرح دھو کر استعمال کیا جا سکتا ہے:

مردار جانور کا چمڑا بغیر رنگے استعمال کرنا حرام ہے البتہ مردار جانور کے چمڑے کو رنگ لینے کے بعد استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ جائز ہے۔ یہی جمہور کا مسلک ہے۔ اس کی تائید میں متعدد احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ علاوہ اازیں چمڑے کی نجاست ایک عارضی چیز ہے جو رنگنے سے زائل ہو جاتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يطهرها الماء والقَرَظ"

"پانی اور قرظ (کیکر کے مشابہ درخت سلم جس کے پتوں سے کھال رنگی جاتی ہے) اسے پاک و صاف کر دیتے ہیں۔"[5]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا:

"دباغ الأديم طهوره"

"چمڑے کی رنگائی اسے پاک کر دیتی ہے۔"[6]

کافروں کے کپڑوں پر نجاست کے آثار نہ ہوں تو ان کا استعمال بھی جائز ہے کیونکہ کسی چیز کا اصل حکم اس کا پاک ہونا ہے جو محض شک و شبہ سے ختم نہیں ہو تا۔ اسی طرح کفار کے ہاتھوں سے بنے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑوں کو استعمال میں لانا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کافروں کے تیار کردہ یا رنگے ہوئے کپڑے پہنتے اور استعمال کرتے تھے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔


[1]۔صحیح البخاری الاطعۃ باب الاکل فی اناء مفضض حدیث 5426۔وصحیح مسلم اللباس والزینۃ باب تحریم استعمال اناء الذھب حدیث 2067۔

[2]۔صحیح البخاری الاشربۃ باب انیہ الفضۃ حدیث 5634وصحیح مسلم اللباس والزینۃ باب تحریم استعمال اوالی الذہب والفضۃ حدیث 2065واللفظ لہ

[3]۔صحیح البخاری فرض الخمس باب ماذکر من درع النبی صلی اللہ علیہ وسلم  وعصاہ حدیث:3109۔

[4]۔شرح صحیح مسلم للنووی 14/41۔

[5]۔وسنن ابی داؤد اللباس باب فی اھب المیتہ حدیث وسنن النسائی والغتیر ۃ باب مایدبغ بہ جلود المیۃ حدیث 4253۔

[6]۔مسند احمد 3/476وسنن ابی داؤد اللباس باب فی اھب المیتہ حدیث 4125۔والمعجم الکبیر للطبرانی حدیث 6341۔واللفظ لہ

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 26

تبصرے