السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مختلف علماء کرام اور قائدین نے اپنے ساتھ جو باڈی گارڈز رکھے ہوئے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ اللہ پر توکل کے خلاف نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دشمنان دین کی بڑھی ہوئی یلغاروں اور فسادات کے ہوتے ہوئے اپنی حفاظت کے لئے اسباب کو بروئے کار لانا توکل کے خلاف نہیں، جیسا کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا میں اپنی اونٹنی چھوڑ دوں اور اللہ پر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا اس کا گھٹنا باندھ اور توکل کر۔ (صحیح ابن حبان 2539، مستدرک حاکم 623)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اسباب کو بروئے کار لانا توکل علی اللہ کے خلاف نہیں لہذا علمائے کرام یا قائدین اسلام اگر دشمنان دین کی خفیہ چالوں سے محفوظ ہونے کے لئے حفاظتی سازوسامان کا بندوبست کرتے ہیں تو یہ توکل علی اللہ کے خلاف نہیں۔
جہاد و قتال ایک ایسا فریضہ ہے جس میں اسلحہ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے اور جان و مال کی حفاظت شریعت اسلامی میں مطلوب ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث صحیحہ میں ایسے دلائل بکثرت موجود ہیں۔ جن میں اسباب اختیار کرنے کا صراحتا حکم ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور ان کافروں کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق قوت تیار رکھو۔" (الانفال 8/60)
اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے مقابلہ کے لئے تیاری کا حکم ہے۔ اسی طرح فرمایا:
"اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان پکڑو پھر (ان سے مقابلہ کے لئے) متفرق طور پر یا اکٹھے ہو کر نکلو۔" (النساء 4/71)
ایک اور مقام پر فرمایا:
"کفار چاہتے ہیں کہ تم اپنے اسلحہ اور اسباب و متاع سے غافل ہو جاؤ تاکہ وہ یکبارگی تم پر حملہ کر دیں۔" (النساء 4/102)
ان آیات بینات سے معلوم ہوا کہ مسلمان آدمی کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ اور اسباب جمع رکھنے چاہئیں تاکہ وہ اپنی حفاظت کا بندوبست اچھے طریقے سے کر سکے۔ باڈی گارڈ اسباب میں سے ایک سبب ہے جسے ضرورت کے تحت رکھا جا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر حفاظتی پہرے کا بندوبست کیا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ ایک رات آپ نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور فرمایا آج رات چوکیداری کون کرے گا؟ تو آپ کی بات پر لبیک کہہ کر ایک انصاری اور ایک مہاجر صحابی نے رات کو چوکیداری کی۔
(ابوداؤد 198، حاکم 1/156 آپ کے مسائل اور ان کا حل 2/130)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ حفاظتی بندوبست کرتے ہوئے آپ نے پہرے داروں کا بندوبست کیا اور صحابہ نے رات کو آپ کی اور دیگر ساتھیوں کی حفاظت کے لئے چوکیداری کی۔ تاریخ مدینہ لابن شبہ 1/300 میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں نماز ادا کرتے تو عمر رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر آپ کا پہرہ دیتے تھے۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور وہ آپ کے پہلو میں تھیں، کہتی ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: کاش کہ میرا کوئی صالح صحابی آج رات میرا پہرہ دے۔ کہتی ہیں ہم اس طرح تھے کہ ہم نے اسلحہ کی آواز سنی آپ نے کہا کون ہے؟ تو اس آدمی نے کہا میں سعد بن مالک ابو وقاص ہوں آپ نے فرمایا تیری کیا حالت ہے؟ اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں آپ کے حراسہ کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ عائشہ فرماتی ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔
(تاریخ مدینہ منورہ 1/300 صحیح البخاری باب الخراسۃ 1/303)
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں مسائل کا استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دشمن سے بچاؤ کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا صحیح ہے۔ (2) لوگوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنے سلطان و امیر کے قتل کی ڈر کی وجہ سے پہرہ دیں۔ (فتح الباری 6/61)
اسی طرح قیس بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور محافظ رہتے تھے۔ (صحیح البخاری 2/1059)
صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ 351،352 سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں بھی اسلحہ لایا جا سکتا ہے مگر اس کا ادب یہ ہے کہ اس کے پھولے کو پکڑ کر رکھے تاکہ کسی مسلمان کو زخمی نہ کرے لہذا مساجد غیر مساجد میں اسلحہ اپنی حفاظت کے لئے لایا جا سکتا ہے اور اسباب کے تحت باڈی گارڈز، چوکیدار وغیرہ رکھنے درست ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب