سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(298) پینٹ شرٹ پہننا

  • 22731
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1189

سوال

(298) پینٹ شرٹ پہننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی مسلمان کے لئے پینٹ شرٹ پہننا جائز ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص جس کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہو گا اس طرح پینٹ شرٹ اور ٹائی غیر مسلموں کا لباس ہے برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں درست رہنمائی فرمائیں۔ (محمد سلیمان سعید، رحیم یار خاں)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ میں مرد و عورت کے لئے جو لباس اختیار کیا گیا ہے وہ ایسا ہے جس سے ستر کا مقصود پورا ہو۔ اگر ایسا لباس پہنے جس سے جسم کے چھپانے والی اشیاء نمایاں ہوں تو وہ ستر کا مقصود پورا نہیں کرتا اسے اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ پینٹ کی کئی شکلیں ہیں بعض ایسی ہیں جو تنگ ہوتی ہیں اور اس میں شرم گاہ کا اظہار ہوتا ہے اس کے بارے میں محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں پینٹ میں دو مصیبتیں ہیں:

(1) پینٹ پہننے والا کفار سے مشابہت اختیار کرتا ہے جبکہ مسلمان کشادہ اور کھلے پاجامے پہنتے ہیں۔ شام اور لبنان میں بعض مسلمان ہمیشہ اس طرح کرتے ہیں۔ مسلمان استعماری طاقتوں سے پہلے پینٹ کو نہیں جانتے تھے استعماریوں کے آنے پر انہوں نے ان کی عادات سئیہ کو اپنی جہالت و بغاوت کی وجہ سے اختیار کر لیا۔

(2) پینٹ شرم گاہ کو ابھارتی ہے اور آدمی کی شرم گاہ گھٹنے سے ناف تک ہے اور نمازی آدمی پر فرض ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے اس وقت بہت دور ہو جب وہ اس کو سجدہ کر رہا ہو۔ (ملخص از القول المبین ص 20)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پاجامے میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے جس کے اوپر چادر نہ پہنی گئی ہو ملاحظہ ہو (حاکم 1/250 صحیح جامع صغیر 6830 شرح معانی الآثار 1/382 ابوداؤد 236) البتہ اگر پینٹ کشادہ ہو تنگ نہ ہو جس میں شرمگاہ نمایاں نہ ہو اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں۔

اور افضل و بہتر یہ ہے کہ پینٹ کے اوپر اتنی لمبی قمیص یا شرٹ ہو کہ آدمی کی ناف سے اور گھٹنے کے درمیان والے حصے کو چھپا لے تاکہ ستر کا مقصود پورا ہو جائے اور ٹائی لگانا تو صلیب سے مشابہت ہے اس سے مکمل اجتناب لازم ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الادب،صفحہ:388

محدث فتویٰ

تبصرے