السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے رشتہ داروں میں بہت سے ایسے پروگرام ہوتے ہیں جن میں گانا بجانا اور تصویریں کھینچنا اور ڈھولک وغیرہ کا بندوبست ہوتا ہے اور ہمیں بھی ان میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے کیا ایسی دعوت میں شریک ہونا شرعا جائز ہے یا اس کا انکار کر دینا مناسب ہے۔ کتاب و سنت کی رو سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں۔ (ابو عبداللہ سیاف عبدالرحمٰن شاکر)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسی دعوت جو اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی پر مشتمل ہو اس میں شریک ہونا جائز نہیں۔ ہاں اگر وہاں برائی کے روکنے اور اس پر نکیر کرنے کے لیے جائیں تو درست ہے وگرنہ نہیں کیونکہ وہ مجالس جن میں ڈھول طبلے سارنگی اور آلات طرب، رقص و سرود، گانا بجانا اور تصویر سازی جیسے محرمات موجود ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مشتمل ہیں بلکہ احکامات شرعیہ کا مذاق ہیں ان میں شرکت ناجائز و حرام ہے جس طرح ان محرکات کا مرتکب وعید شدید کا مستحق ہے اسی طرح ان کے اس فعل پر رضامندی کا اظہار کر کے مجلس میں شامل ہونے والا اور مجلس منعقد کرنے والا گناہ میں برابر کا شریک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور بعض لوگ ایسے ہیں جو گانے بجانے کے سامان خریدتے ہیں تاکہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو گمراہ کریں اور اسے ہنسی مذاق بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے اور جب اس کے سامنے ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتے ہوئے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا اس کے دونوں کانوں میں بوجھ ہے آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔" (لقمان 31/6،7)
اس آیت میں (لَهْوَ الْحَدِيثِ) کا مطلب گانا بجانا ہے جیسا کہ صحابی رسول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے تھے اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس آیت کریمہ میں (لَهْوَ الْحَدِيثِ) کے معنی گانا بجانا ہے یہ بات انہوں نے تین بار دھرائی۔(تفسیر طبری 21/62، ابن کثیر 3/482، مستدرک حاکم 2/411، بیہقی 10/223)
یہی تفسیر جابر، عکرمہ، سعید بن جبیر، قتادہ، ابراہیم نخعی، مجاہد، سے مروی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ سلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین کی اس تصریح سے معلوم ہوا کہ گانا بجانا اور اس کے آلات کی خریداری بالکل ناجائز ہے اس پر (عذاب مہین) کی وعید سنائی گئی ہے اور ایسے امور محرمہ جہاں موجود ہوں وہاں پر شرکت کرنے والا بھی انہیں کے حکم میں داخل ہے کیونکہ گناہ کرنے والا بھی انہی کے حکم میں داخل ہے کیونکہ گناہ کرنے والا اور گناہ پر راضی ہونے والا دونوں ایک ہی حکم میں ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک کہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں ورنہ تم بھی اس وقت انہیں جیسے ہو، یقینا اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔"
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا کہ اگر تم ایسی مجالس و محافل اور پروگراموں میں شرکت کرو گے جہاں احکامات الٰہیہ کا مذاق ارایا جا رہا ہو اور تم اس پر نکیر نہیں کرو گے تو تم بھی گناہ میں ان کے برابر کے شریک رہو گے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب