سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) عزت بچانے کی خاطر خودکشی کرنا

  • 22702
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1924

سوال

(269) عزت بچانے کی خاطر خودکشی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی نے خودکشی کی تو اس کو اسی آلے کے ساتھ قیامت تک عذاب دیا جاتا رہے گا جس کے ساتھ اس نے خودکشی کی تو ایسی عورتوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا جنہوں نے اپنی عزت بچاتے ہوئے اپنی جان ضائع کر دی۔ مثلا ہم سنتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت عورتوں نے کنوؤں میں چھلانگ لگا دی کیا کسی بھی صورت میں خودکشی جائز نہیں۔ (ایک سائلہ، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرایا اور اپنی جان کو قتل کر ڈالا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں گرتا رہے گا۔ جس نے زہر کے گھونٹ بھر کر اپنے آپ کو مار ڈالا اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں اس کے گھونٹ بھرتا رہے گا اور جس نے کسی تیز دھار والے آلے سے اپنے آپ کو قتل کیا اس کا آلہ اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ کو زخمی کرتا رہے گا۔ (صحیح البخاری کتاب الطب 5778)

جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کو زخم لگا اس نے (زخم کی تاب نہ لا کر) اپنے آپ کو مار ڈالا اس پر اللہ نے فرمایا: میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی میں اس پر جنت کو حرام کرتا ہوں۔(صحیح البخاری کتاب الجنائز 1364)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا گلا خود گھونٹتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیر وغیرہ سے اپنے آپ کو مارتا ہے وہ جہنم میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو مارتا رہے گا۔(صحیح البخاری کتاب الجنائز 1365)

ان احادیث صحیحہ سے تو یہی بات واضح ہوتی ہے کہ خودکشی حرام ہے خودکشی کرنے والے پر اللہ نے جنت حرام کی ہے اور جس طرح اپنے آپ کو مارے گا اسی طرح جہنم میں اسے سزا دی جائے گی۔

صورت مسئولہ میں بظاہر تو یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ اپنی عزت بچانے کی غرض سے جان دی گئی ہے لیکن مجھے اس طرح خودکشی کے بارے کوئی حدیث وغیرہ نہیں ملی۔ ہماری جماعت کے معروف و مشہور مفتی اور شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا الاعتصام 17 مئی 2002ء میں ایک فتویٰ طبع ہوا ہے اس کی عبارت درج ذیل ہے۔

"اس قسم کے حالات کے باوجود خودکشی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ خودکشی شدید ترین جرم ہے اس طرح کی جبری صورت میں عورت پر حد قائم نہیں ہوتی۔ وہ بری الذمہ ہے چنانچہ امام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح میں یہ باب قائم کیا ہے کہ عورت کو جب زنا پر مجبور کیا جائے تو اس پر کوئی حد نہیں لاگو ہو گی۔"

حضرت حافظ صاحب نے جس باب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تو یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح البخاری کتاب الاکراہ میں باب نمبر 6 منعقد کیا ہے۔ اس باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں مجھے نافع نے خبر دی ہے انہیں صفیہ بنت ابی عبید نے بتایا کہ حکومت کے غلاموں میں سے ایک غلام نے خمس کے حصے کی ایک باندی سے زنا کیا اور اس کے ساتھ زبردستی صحبت کر کے اس کی بکارت زائل کر دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسی غلام پر حد جاری کی اور اسے شہر بدر کر دیا اور اس باندی پر حد نہیں لگائی کیونکہ غلام نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خودکشی سے اجتناب کرنا چاہیے اور اگر کسی عورت سے جبر و اکراہ کی صورت میں بدکاری کی گئی تو وہ عورت اللہ کے ہاں بری الذمہ ہے اس پر کوئی حد و سزا نہیں البتہ مجرموں کو شرعی حد لگائی جائے گی۔ اگر کفار و مشرکین مسلمان خواتین کی عصمت دری کریں اور ان کی عفت و پاکدامنی کو داغ دار کریں تو دوسرے مسلمان بھائیوں پر ان عورتوں کی عفت و عصمت کا بدلہ لینا واجب ہے اگر مسلمان اپنی اسلامی بہنوں کا بدلہ نہیں لیتے تو اللہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ جہاد جو دین اسلام کی چوٹی ہے اس کے مقاصد میں سے یہ امر بھی ہے جس سے آج امت مسلمہ چشم پوشی کر رہی ہے اگر جہاد فی سبیل اللہ کو صحیح معنوں میں جاری کر دیا جائے تو مسلمان خواتین کو یہ نوبت پیش نہ آئے۔ افسوس صد افسوس کہ آج اتنی تعداد میں مسلم حکمران، ممالک اور عوام موجود ہیں لیکن جہاد فی سبیل اللہ کے فریضے کو سمجھنے سے عاری ہیں اور اپنی دنیاوی خواہشات اور لذات کے پیچھے لگ کر اس فریضے سے غفلت برت رہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں جہاد کو کھڑا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے اور مسلم خواتین کی عفت و عصمت کو محفوظ فرمائے۔ آمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الحدود،صفحہ:353

محدث فتویٰ

تبصرے