السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید مختلف لوگوں سے سعودی ریال یا دیگر غیر ملکی کرنسیاں، پاکستانی کرنسی کے بدلے میں مارکیٹ سے زیادہ قیمت پر ادھار خرید لیتا ہے، اور بوقت بیع وصول کرلیتا ہے ،جبکہ اس کی طے شدہ قیمت پاکستانی روپے میں مقررہ وقت پر ادا کردیتا ہے،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!تجارت کی اس قسم کو بیع سلف کہا جاتا ہے،اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز ادھار خرید لیتا ہے اور بعد میں مقرر کئے گئے وقت پر اس کی قیمت ادا کر دیتا ہے۔ غیر ملکی کرنسی بھی ایک مال تجارت ہے، اور اسے کسی بھی(مارکیٹ سے کم یا زیادہ) قیمت پر ادھار خریدنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ بوقت عقد مندرجہ ذیل دو چیزیں متعین کر لی جائیں: 1۔ قیمت طے کر لی جائے 2۔وقت مقرر کر لیا جائے مذکورہ دونوں شرائط پوری کر لینے کے بعد بیع کی یہ قسم جائز ہے۔جب نبی کریمﷺ نے وفات پائی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس کچھ اناج کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی ،اور آپ نے اس اناج کی قیمت بعد میں ادا کرنی تھی۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |