سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(255) حالت حمل میں طلاق

  • 22688
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 755

سوال

(255) حالت حمل میں طلاق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی اور بیوی حالت حمل میں تھی چار ماہ بعد بچہ پیدا ہوا تقریبا ایک سال سے اوپر عرصہ گزر چکا ہے اب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں کیا کوئی گنجائش شریعت میں موجود ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالت حمل میں دی گئی طلاق واقعی ہوتی ہے اور وضع حمل سے پہلے مرد کو رجوع کا حق ہوتا ہے بشرطیکہ طلاق دھندہ کی پہلی یا دوسری طلاق ہو اور عدت گزر جانے پر نکاح ختم ہو جاتا ہے صورت مذکورہ میں عدت کے اندر صلح نہیں ہو گی لہذا یہ طلاق واقع ہو کر مؤثر ہو چکی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے ڈالی عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے"۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے"۔ (الطلاق)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر حاملہ عورت کی عدت حمل ہے لہذا یہ طلاق موثر ہو چکی ہے اور نکاح ختم ہو گیا ہے اور اگر طلاق دھندہ کی پہلی یا دوسری طلاق ہے تو دوبارہ نکاح کے ذریعے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الطلاق،صفحہ:336

محدث فتویٰ

تبصرے