سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(246) نابالغ لڑکی کا نکاح

  • 22679
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1902

سوال

(246) نابالغ لڑکی کا نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے اپنی بیٹی کا بچپن میں نکاح کر دیا، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ اگر صحیح ہو تو لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن و سنت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح صحیح ہے اور لڑکی بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر راضی رہے تو تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر بلوغت کے بعد اس نکاح پر رضا مند نہ ہو تو اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے، نابالغ لڑکی کے نکاح کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہے

"تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اور وہ جنہیں حیض نہیں آیا اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔" (الطلاق: 4)

اس آیت کریمہ میں اللہ نے طلاق یافتہ عورتوں کی عدت بیان کی ہے کہ ان طلاق یافتہ عورتوں میں سے جو عمر رسیدہ ہو چکی ہوں اور ان کے ایام ماہواری آنے سے پہلے بند ہو چکے ہوں یا ابھی نابالغ ہیں جن کو حیض بالکل نہیں آیا ان کی عدت تین ماہ ہے۔

ظاہر ہے طلاق نکاح سے پہلے نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جس چیز کا انسان مالک نہیں اس میں طلاق نہیں۔" (ترمذی، ابوداؤد)

امام بخاری نے بھی صحیح البخاری کتاب النکاح میں اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے باب نکاح الرجل ولدہ الصفار باب نمبر 39)

یعنی آدمی کا اپنی چھوٹی اولاد کا نکاح کرنا اور اس باب میں سورۃ طلاق کی اس آیت کریمہ کو ذکر کرنے کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے چھ سال کی عمر میں نکاح والی حدیث کو لائے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کر لو خواہ دو عورتوں سے، خواہ تین سے، خواہ چار سے"۔ (النساء: 3)

اس آیت کریمہ کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جن کی زیر ولایت یتیم بچوں کا جان و مال ہے، اس آیت کریمہ سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر انصاف و عدل کا یقین ہو تو ان اولیاء کو نابالغہ یتیم بچیوں سے نکاح کر لینا درست ہے لہذا باپ کا اپنی نابالغ بچی کا نکاح کر دینا بدرجہ اولیٰ جائز ٹھہرا۔ علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں چھوٹی یتیم بچی کے نکاح کے جواز کی دلیل ہے اور لڑکی بلوغت کے بعد اگر اس نکاح کو قائم نہ رکھنا چاہے تو اسے فسخ نکاح کا حق حاصل ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے بیان دیا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی کر دی ہے اور وہ ناپسند کرتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا (ابوداؤد، احمد، ابن ماجہ) پس معلوم ہوا کہ نابالغ لڑکی کو بعد از بلوغت فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں فتاویٰ محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:322

محدث فتویٰ

تبصرے