سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) شادی کے دو ماہ بعد بچے کی پیدائش

  • 22677
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1675

سوال

(244) شادی کے دو ماہ بعد بچے کی پیدائش

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی ایک لڑکی کے ساتھ منگنی ہو جاتی ہے اور وہ آپس میں ملتے رہتے ہیں پھر ان کا جب نکاح ہو جاتا ہے تو نکاح کے دو ماہ بعد اس لڑکے کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو کیا یہ بچہ حلال زادہ ہے یا حرام کا۔ (عبدالقدوس، گلگت)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی کے دو ماہ بعد بچے کی ولادت کسی طرح بھی درست نہیں۔ ایسا بچہ جو شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا اسے اہل علم نے حلال کا شمار کیا ہے اور اسے اس کے باپ کی طرف منسوب کرنا درست قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ پیش کرتے ہیں:

﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِو‌ٰلِدَيهِ إِحسـٰنًا حَمَلَتهُ أُمُّهُ كُرهًا وَوَضَعَتهُ كُرهًا وَحَملُهُ وَفِصـٰلُهُ ثَلـٰثونَ شَهرًا ...﴿١٥﴾... سورة الاحقاف

"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس (30) مہینے ہے۔"

اس آیت کریمہ میں حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت اڑھائی سال بتائی گئی ہے جس میں چوبیس مہینے (دو سال) مدت رضاعت ہے۔ جیسا کہ خود قرآن حکیم نے واضح کیا ہے (سورۃ لقمان: 14) میں ارشاد فرمایا: وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے اور (سورۃ بقرہ 2/233) میں فرمایا ہے ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔ ان آیات بینات نے واضح کر دیا کہ مدت رضاعت دو سال (چوبیس مہینے) ہے سورۃ احقاف میں جو حمل اور دودھ چھڑائی کی مدت 30 ماہ بتائی ہے اس میں 24 ماہ مدت رضاعت اور چھ ماہ حالت حمل کے ہیں۔ لہذا شادی کے چھ ماہ بعد اگر بچہ پیدا ہو تو وہ حلال ہوتا ہے۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وقد استدل على رضى الله عنه بهذه الآية مع التى فى لقمان (وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ) وقوله تبارك و تعالى (وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا) على ان اقل مدة الحمل ستة اشهر وهو استنباط قوى و صحيح وافقه عليه عثمان وجماعة من الصحابة رضى الله عنهم(تفسیر ابن کثیر 7/207،258)

اور تحقیق علی رضی اللہ عنہ نے سورۃ احقاف کی اس آیت کو سورۃ لقمان کی آیت نمبر 14 اور سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 233 کے ساتھ ملا کر استدلال کیا ہے کہ اقل مدت چھ ماہ ہے یہ استنباط قوی اور صحیح ہے اور اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے موافقت کی ہے۔

نیز دیکھیں تفسیر قرطبی 16/129 ہے احکام القرآن لابن العربی 4/1697،1698 تفسیر مدارک 2/553 تفسیر قاسمی 8/445 فتح البیان 6/300 لہذا شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ کسی طرح بھی حلال کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ہم یہاں پر ان والدین سے بھی گزارش کریں گے جو اپنے بچوں کے رشتے کرنے کے بعد سالہا سال شادی میں تاخیر کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کے جوان ہونے کے ساتھ ان کے نکاح کر دیں تاکہ وہ کسی فعل حرام کا ارتکاب نہ کریں اور نکاح کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد جائز اور حلال طریقے سے اپنے ایام ہائے زندگی بسر کریں اور فعل حرام کی ذلت و رسوائی سے محفوظ ہو سکیں۔ خود ایجاد کردہ رسم و رواج نے ہمیں ذلت و تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے والدین جائز و ناجائز طریقے اختیار کرتے ہیں اور اولادیں حرام طریقوں سے اپنی جنسی خواہشات پورا کرنے کے لئے مختلف گلی، محلوں، سڑکوں، چوراہوں، پارکوں اور ہوٹلوں میں سرگرداں ہیں۔ اللہ تعالیٰ افراط و تفریط سے ہٹ کر صحیح اسلامی شاہراہ پر گامزن ہونے کی ہر ایک مسلم کو توفیق بخشے اور اولادوں کی صحیح اسلامی نہج پر تربیت کرنے کی ہمیں توفیق عنایت کرے۔ آمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:318

محدث فتویٰ

تبصرے