سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(236) کیا شادی کے لیے بارات لے جانا ضروری ہے؟

  • 22669
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2006

سوال

(236) کیا شادی کے لیے بارات لے جانا ضروری ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا شادی کے موقع پر دولہا کے ساتھ بارات کا جانا کسی حدیث سے ثابت ہے؟ (شیخ آفتاب صاحب، سرگودھا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی بیاہ کے موقعہ پر مروجہ بارات لے جانا شرعا بالکل ثابت نہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عہد رسالت مآب اور خلفائے راشدین کے ایام ہائے خلافت میں کہیں بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نکاح کے لیے دولہا، دو گواہ اور لڑکی کے ولی و سرپرست کا ہونا کافی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں آپ کے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شادیاں ہوئیں۔ کسی نے بھی بارات کا اہتمام نہیں کیا۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زردی کا نشان دیکھا تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے ایک عورت کے ساتھ سونے کی ایک ڈلی کے برابر مہر کے ذریعے نکاح کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تیرے لیے برکت ڈال دے۔ ولیمہ کرو، اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ 2310)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ہوا جب آپ نے عبدالرحمٰن پر زعفران کا زرد رنگ دیکھا۔ اگر اسلام میں بارات کا کوئی تصور ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے بلایا جاتا۔ لیکن اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی صحابی کی شادی پر بارات ساتھ گئی ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی پیاری بیٹی فاطمۃ الزہرا کا رشتہ مانگنے کے لیے علی رضی اللہ عنہ اکیلے ہی آپ کے پاس تشریف لے گئے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال و ہیبت کی وجہ سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی آپ نے پوچھا کیا چیز تمہیں لائی ہے کیا تجھے کوئی حاجت ہے؟ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں خاموش ہو گیا۔ پھر آپ نے ایسے ہی کہا پھر علی رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے۔ بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَعَلَّكَ جِئْتَ تَخْطُبُ فَاطِمَةَ ؟ شاید تم فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منگنی کے لیے آئے ہو۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں! آپ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مہر دینے کے لیے کچھ ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نہیں اللہ کی قسم، آپ نے فرمایا: تیری لوہے کی زرہ جو میں نے تجھے پہنائی تھی کا کیا بنا؟ کہنے لگے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں علی رضی اللہ عنہ کی جان ہے وہ تو حطمیہ ہے اس کی قیمت 4 درہم بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا تیرے نکاح میں دی۔ وہ زرہ تو اسے بھیج دے جس کے ساتھ تو فاطمہ کو حلال کرے گا یعنی بطور مہر دے کر اسے اپنے لیے حلال بنا لو، فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حق مہر تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں۔(دلائل النبوۃ للبیہقی 3/60 البدایہ والنہایہ 3/302 اسد الغابہ 8/215،216)

اس واقعہ سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ کائنات کے افضل ترین بندوں میں سے علی مرتضیٰ اور فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہما کی شادی پر نہ بارات کا میلہ اور نہ ہی رسم و رواج کا کوئی دخل۔ علی رضی اللہ عنہ اکیلے ہی منگنی کے لیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مہر پوچھ کر اپنی پیاری لخت جگر فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کا نکاح کر دیا۔ صحیح اسلامی طریقہ ہی یہی ہے کہ جس گھر میں نکاح کا ارادہ ہو وہاں لڑکا پیغام نکاح دے۔ وہ گھر والے منظور کر لیں تو جلد نکاح کر دیں۔ رسم و رواج کا قطعا انتظار نہ کریں۔ اسی میں خیر و فلاح ہے اللہ تعالیٰ صحیح سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے اور ہر قسم کے ہندوانہ رسم و رواج سے بچائے۔ آمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:308

محدث فتویٰ

تبصرے