السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شادی ہو جانے کے بعد جو آج کل رواج بن گیا ہے کہ پہلے لڑکے والے لڑکی لے جاتے ہیں اور پھر دوسرے دن لڑکی کے والدین آ جاتے ہیں پھر لے جانا کیا سنت ہے؟ (محمد عبداللہ شرقپور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک مسلمان کے لیے زندگی گزارنے کا نمونہ و اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ کی سیرت ہمارے لیے ہر مسئلہ میں راہنمائی کا کام دیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی شادیاں بھی کیں اور اپنی بیٹیوں کی بھی۔ یہ جو مکلاوے کا رواج ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں لڑکی اور لڑکا شادی کے بعد اپنی مرضی سے جب چاہیں اپنے سسرال یا عزیز و اقارب کو ملنے جائیں دنوں کی کوئی قید اور پابندی شرع میں وارد نہیں۔ اور سلف صالحین سے بھی اس طرح شادی کے دوسرے دن ہی لڑکی کو لے جانا ثابت نہیں صرف یہاں ایک واقعہ باعث نصیحت درج کرتے ہیں۔ امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ جو اہل مدینہ میں سے بڑے عالم اور سید التابعین میں شمار ہوتے ہیں ان کی بیٹی کا رشتہ خلیفہ عبدالملک نے اپنے بیٹے ولید کے لیے طلب کیا جو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے ایک شاگرد کثیر بن المطلب بن ابی وداعہ سے کی۔ ابن ابی وداعہ کا بیان ہے کہ میں سعید بن المسیب کے ہاں بیٹھا کرتا تھا تو پھر کچھ دن میں ان کی مجلس میں حاضر نہ ہوا دوبارہ میری حاضری پر انہوں نے سوال کیا تم کہاں تھے؟ میں نے کہا میری اہلیہ فوت ہو گئی تھی میں اس وجہ سے کچھ مشغول و مصروف ہو گیا امام سعید بن المسیب فرمانے لگے تم نے ہمیں خبر کیوں نہ دی ہم اس کے جنازے میں شرکت کرتے پھر فرمانے لگے کیا تم نے کسی نئی عورت سے شادی کی ہے؟ میں نے کہا اللہ آپ پر رحم کرے مجھے کون رشتہ دے گا میں تو صرف دو یا تین درہموں کی ملکیت رکھتا ہوں امام سعید بن المسیب نے کہا میں تمہیں رشتہ دوں گا میں نے کہا آپ ایسا کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں پھر انہوں نے اللہ کی حمد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا اور مجھے دو یا تین درہم حق مہر کے عوض نکاح کر دیا میں اٹھا اور فرط مسرت کی وجہ سے مجھے کوئی کام نہ سوجھا میں اپنے گھر گیا اور سوچنے لگا کس سے قرض لوں۔ میں نے مغرب کی نماز ادا کی اور گھر لوٹا اور اکیلا ہی روزے کی حالت میں تھا میں نے اپنا روزہ روٹی اور زیتون سے افطار کیا تو میرے دروازے پر دستک ہوئی میں نے کہا کون؟ اس نے کہا سعید میں ہر اس شخص کے بارے سوچنے لگا جس کا نام سعید تھا۔ سوائے سعید بن المسیب کے اس لئے کہ سعید بن المسیب چالیس سال سے اپنے گھر اور مسجد کے درمیان ہی دیکھے گئے تھے۔ میں باہر نکلا تو سعید بن المسیب کھڑے تھے میں نے کہا اے ابو محمد (سعید بن المسیب کی کنیت) آپ مجھے پیغام بھیج دیتے میں خود حاضر ہو جاتا تو انہوں نے کہا نہیں تم زیادہ حق رکھتے ہو کہ تمہارے پاس آیا جائے تم اکیلے آدمی تھے میں نے تمہارے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی ہے۔ اور میں نے ناپسند کیا کہ تم اکیلے رات بسر کرو یہ تمہاری عورت ہے وہ ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ پھر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کے اندر کر دیا اور دروازہ بند کر دیا عورت شرم و حیا کا پتلا تھی۔ میں نے دروازہ چیک کیا پھر پیالہ چراغ کے سائے تلے رکھ دیا تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکے پھر میں گھر کی چھت پر چڑھ گیا، پڑوسیوں کو بلایا وہ آ گئے کہنے لگے تمہاری کیا حالت ہے؟ میں نے انہیں بتایا وہ اس کے پاس آئے اور میری ماں کو بھی خبر پہنچ گئی وہ آئیں کہنے لگیں میرا چہرہ تیرے چہرے پر حرام ہو اگر تم اس کے قریب جاؤ تاوقتیکہ میں تین دن اس کا امتحان لے لوں میں تین دن رکا رہا پھر اس پر داخل ہوا۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ حسینہ و جمیلہ اور سب سے زیادہ قرآن کی حافظہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمہ اور سب سے زیادہ خاوند کے حق کو پہچاننے والی پھر میں ایک ماہ تک سعید بن المسیب کے ہاں نہ گیا پھر اس کے بعد ان کے ہاں آیا وہ اپنے حلقہ درس میں تھے میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور اختتام مجلس تک کوئی بات نہ کی جب میرے علاوہ سب چلے گئے تو انہوں نے کہا، اس انسان کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا بہت اچھا اے ابو محمد، جسے دوست پسند کرتا ہے اور دشمن ناپسند کرتا ہے کہنے لگے اگر تمہیں کوئی چیز مکروہ لگے تو لاٹھی سے کام لو، میں اپنے گھر واپس آ گیا انہوں نے مجھے 20 ہزار درہم بھیجے ملاحظہ ہو۔ (حلیۃ الاولیاء 2/167،168 سیر اعلام النبلاء 4/233،234) امام سعید بن المسیب کے اس واقعہ سے ہمارے لئے کئی ایک مسائل نکلتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر رسم و رواج کا سلف صالحین کے ہاں کوئی تصور نہ تھا۔ بارات، جہیز، مکلاوہ، سہرے گانے، ڈھول وغیرہ سب ہندوانہ رواج ہیں جو برصغیر پاک و ہند میں مسلم ہندو اختلاط کی وجہ سے پھیل چکے ہیں۔ ہمیں ہر قسم کے رسم و رواج اور بدعات و خرافات سے اپنے ماحول کو پاک و صاف کرنا چاہیے۔ امام سعید بن المسیب کی بیٹی کی شادی ایک بادشاہ کے بیٹے کی بجائے ایک دیندار شخص سے ہوئی اور شادی کے دوسرے دن بیٹی کو لینے نہیں چلے گئے تھے بلکہ ان کا داماد ایک ماہ بعد اکیلا حاضر خدمت ہو رہا ہے۔ بہرکیف شادی کے بعد لڑکی اور لڑکے کی باہمی رضامندی ہے جب چاہیں لڑکی اپنے والدین اور لڑکا اپنے سسرال والوں کو ملنے چلے جائیں دوسرے دن جانا یہ رسم ہے اس کو توڑنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب