سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230) اولاد کی تمنا میں شادی کرنا

  • 22663
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1012

سوال

(230) اولاد کی تمنا میں شادی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اولاد کی آرزو کے لئے شادی کرنی چاہیے، کتاب و سنت میں اس کے بارے کیا رہنمائی کی گئی ہے؟ (حاجی اسلم صاحب، سبزہ زار لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی کے بعد خاوند اور بیوی کی بڑی آرزو اور تمنا نیک اولاد کا حصول ہے اور یہ ایک فطری امر ہے، انسان اس بات کا خواہش مند ہے کہ اللہ اسے ایک ایسا وارث عطا کرے جو اس کے بعد اس کی املاک، مال و متاع اور زر و زمین کا صحیح تصرف کرے اور اس کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ممد و معاون اور صحیح جانشین بن سکے۔ اولاد نسل انسان کی بقاء کا سبب و ذریعہ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ انسان کو اس کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے:

"اب تم اپنی بیویوں سے شب باشی کیا کرو اور اللہ نے جو تمہارے لئے لکھ دیا اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔" (البقرہ: 187)

کئی ایک آئمہ مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ "اللہ نے تمہارے لئے جو لکھ دیا ہے" سے مراد اولاد ہے (تفسیر ابن کثیر وغیرہ) اس دنیا میں سب سے برگزیدہ ہستیاں انبیاء و رسل کی گزری ہیں ان ہستیوں نے نیک اولاد کو حاصل کرنے کی نہ صرف تمنا کی ہے بلکہ اللہ سے دعائیں مانگی ہیں جد الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی دعا یہ ہے

"اے اللہ میرے پروردگار مجھے نیکوکار اولاد عطا کر"۔ (الصافات: 100)

زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں یوں دعا کی:

"اے میرے پروردگار! میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو اور اے میرے پروردگار اس کو پسندیدہ انسان بنا"۔ (مریم: 5،6)

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

"زیادہ محبت کرنے اور زیادہ بچے دینے والی عورت سے شادی کرو میں تمہاری وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا"۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

ان آیات و احادیث کا واضح مفاد یہ ہے کہ اولاد کا حصول شادی کے مقاصد میں سے ہے اس لیے اولاد کے لیے شادی کرنا بالکل جائز و درست ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:300

محدث فتویٰ

تبصرے