سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(229) نکاح کے لئے ولی کی اجازت

  • 22662
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 920

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نکاح کے لئے ولی کی اجازت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ میں نکاح کی شرائط میں سے ایک ولی کا ہونا ضروری ہے اس پر کئی آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ دلالت کرتی ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے "اور مشرکین کو نکاح کر کے نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور البتہ غلام مومن مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ اچھا لگے۔" (البقرۃ: 221)

امام قرطبی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: "یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں"۔ (تفسیر قرطبی 3/49)

مشہور دیوبندی حنفی عالم عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں (لَا تُنكِحُوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو حکم خود عورتوں کو براہ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ، یہ طرز خطاب بہت پُر معنی ہے صاف اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے"۔ (تفسیر مادی 89)

دوسرے مقام پر فرمایا کہ "اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔ (البقرۃ: 232)

حافظ ابن حجر اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں "یہ آیت ولی کے معتبر ہونے پر سب سے زیادہ واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہوتا تو اس کے روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا اور اگر عورت کے لئے اپنا نکاح کرنا خود جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی"۔ یہ آیت کریمہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کے بارے نازل ہوئی تھی۔ (فتح الباری 9/94) تقریبا یہی بات تفسیر بغوی 2/211 المغنی لابن قدامہ 7/338 ابن کثیر 1/302 اور تفسیر طبری 2/488 میں موجود ہے۔

دور جاہلیت میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے کئی طریقے رائج تھے صرف ایک طریقہ ایسا تھا جس میں ولی ہوتا تھا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کی ایسی صورتیں جو ولی کے بغیر تھیں ان کے بارے میں فرماتی ہیں "جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دئیے سوائے اس نکاح کے جو آج لوگوں میں رائج ہے اور وہ نکاح ایسا ہے جس میں ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس کی زیر ولایت لڑکی کے نکاح کے لئے پیغام بھیجتا اور مہر ادا کر کے نکاح کر لیتا۔ (صحیح البخاری) اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح شریعت میں نہیں ہے اسی طرح مسند احمد 4/394 حاکم 2/129 وغیرھما میں حدیث ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا لہذا پہلا نکاح جو ولی کی اجازت کے بغیر قائم کیا گیا وہ درست نہ تھا اس میں تفریق کروا دینی چاہیے۔ اب جو ان دونوں میں جدائی ہو چکی ہے اور دس ماہ بیت چکے ہیں تو عورت اپنے ولی کے ذریعے جہاں چاہے نکاح کروا سکتی ہے اسے نکاح کرنے سے کوئی شخص بھی روکنے کا مجاز نہیں رہا۔ پہلے جس شخص سے نکاح کیا ہوا تھا اس سے تحریر کے مطالبے کی حاجت ہی نہیں کیونکہ ان کا نکاح ولی کے نہ ہونے کی وجہ سے منہدم تھا اور یہ قانونی کاروائی پہلے چونکہ نہیں ہوئی تھی اس لئے ان کی جدائی کے لئے بھی اس کی حاجت نہیں اور دنیا کی کسی بھی عدالت میں وہ قانونی لحاظ سے اپنے نکاح کو ثابت ہی نہیں کر سکتا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:298

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ