سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(222) کیا حرام کی کمائی سے حج اور صدقہ جائز ہے؟

  • 22655
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2879

سوال

(222) کیا حرام کی کمائی سے حج اور صدقہ جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حرام کی کمائی سے حج کیا جا سکتا ہے اور یہ رقم صدقہ خیرات میں خرچ ہو سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (ڈاکٹر ظہور احمد، رحمان کالونی اوکاڑہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو پاکیزہ اشیاء میں سے کھانے اور عمل صالح سر انجام دینے کا حکم دیا ہے اور اہل ایمان کو بھی اس حکم کی پابندی کا آرڈر دیا ہے۔ حرام اشیاء کے استعمال سے منع کیا ہے۔ حرام مال سے دیا گیا صدقہ و زکوٰۃ وغیرہ قبول نہیں کیا جاتا۔ آج کل لوگ حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر ہر طرح کا مال استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مساجد و مدارس تک لوگ سود یا رشوت وغیرہ کی حرام کمائی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ) (بخاری بحواله مشکوٰة کتاب البیوع 2761)

"لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ آدمی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو چیز اس نے لی ہے وہ حلال میں سے ہے یا حرام میں سے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات بالکل سچی ثابت ہو رہی ہے لوگ حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر ہر قسم کا مال و متاع استعمال کر رہے ہیں۔ مساجد و مدارس کی تعمیر، صدقہ و خیرات، حج و جہاد جیسے پاکیزہ کاموں میں حرام کی کمائی صرف کر رہے ہیں حالانکہ مشرکین مکہ نے جب مسجد حرام کی تعمیر کی تو اس وقت ابو وہب بن عابد بن عمران بن مخزوم نے قریش سے کہا:

تم اس مسجد کی تعمیر میں اپنے پاکیزہ مال سے ہی خرچ کرو اور اس میں زانیہ عورت کی کمائی، سودی رقم اور دیگر کسی قسم کے ظلم سے حاصل کی ہوئی رقم صرف نہ کرو۔(فتح الباری 3/444)

تعجب و حیرانگی ہے کہ مکہ کے لوگ مشرک ہو کر بیت اللہ کی تعمیر میں حرام کی کمائی ہوئی دولت صرف کرنے کو تیار نہیں جبکہ عصر حاضر میں لوگ مسلمان ہو کر حرام کی کمائی اپنی عبادات پر صرف کر رہے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ خود پاک و صاف ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بےشک اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے اور بلاشبہ اللہ نے مومنوں کو اسی بات کا حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے اے رسولو! پاکیزہ اشیاء میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ (المومنون: 56) اور فرمایا اے ایمان والو پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطاء کیں۔ (بقرہ: 172)

پھر ایک آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال بکھرے ہوئے غبار آلود ہیں آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے اے میرے رب اے میرے رب حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پینا حرام اور اس کا لباس حرام اور وہ حرام غذا دیا گیا ہے تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی؟ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ 2760)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پاکیزہ اور حلال اشیاء ہی قبول ہوتی ہیں جس آدمی نے حرام اشیاء استعمال کی ہوں، کھانا پینا لباس وغیرہ تو اس کی دعا اللہ کے ہاں قبول کیسے ہوتی ہے لہذا حرام مال سے صدقہ و خیرات، حج وغیرہ ادا نہیں کرنا چاہیے۔ حرام مال بربادی اعمال کا سبب ہے اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الحج،صفحہ:275

محدث فتویٰ

تبصرے