سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) قربانی کا جانور ذبح کرنا

  • 22632
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1037

سوال

(199) قربانی کا جانور ذبح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کا جانور خود ذبح کرنا بہتر ہے یا کہ دوسرے آدمی سے ذبح کروانا نیز کیا عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل و بہتر ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ذبح کیا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈھا پکڑا پھر اسے لٹا کر ذبح کیا۔(ابوداؤد 2792 صحیح مسلم، مسند احمد 6/78)

اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور کو ذبح کرنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے یہ بھی بیان فرمایا کہ آپ نے دونوں جانوروں کو اپنے دست مبارک سے ذبح کیا۔ (صحیح البخاری 5558، صحیح مسلم، ابوداؤد، 2794، ابن الجارود 909)

لہذا بہتر اور افضل عمل وہ ہے جسے خود ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور ذبح کا یہ حکم صرف مردوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ خواتین بھی اپنے قربانی کے جانور ذبح کر سکتی ہیں صحیح البخاری میں امام بخاری نے تعلیقا اور امام حاکم نے المستدرک میں موصولا بیان کیا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی کا جانور ذبح کریں۔(صحیح البخاری، فتح الباری 10/19 عبدالرزاق 8169)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری نے فتح الباری 10/19 میں اس کی ایک اور صحیح سند بھی ذکر کی ہے جس میں ہے "سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اپنی قربانیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا کریں۔

اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے پتھر کے ساتھ ایک بکری کو ذبح کیا اور یہ واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا (سنن ابن ماجہ کتاب الذبائح باب ذبیحۃ المراۃ 1383۔ صحیح البخاری 5501، 5504) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ بکری کھانے کا حکم دیا تھا۔

ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت بھی خود جانور ذبح کر سکتی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الاضحیۃ،صفحہ:255

محدث فتویٰ

تبصرے