سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(184) جائے اعتکاف میں کس وقت داخل ہونا چاہیے

  • 22617
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3611

سوال

(184) جائے اعتکاف میں کس وقت داخل ہونا چاہیے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جائے اعتکاف میں کس وقت داخل ہونا چاہیے، اور اعتکاف میں جائز امور کون کون سے ہیں؟ (حافظ آصف، شیخوپورہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اعتکاف کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔ دوسری حدیث یہ ہے:

"سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے۔"(صحیح مسلم، ابوداؤد 334)

ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عام اہل علم یہ بات لکھتے ہیں کہ آخری عشرہ کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ لہذا معتکف کو چاہیے کہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آ جائے۔ رات بھر تلاوت قرآن، ذکر الٰہی، تسبیح و تہلیل اور نوافل میں مصروف رہے اور صبح نماز فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔

جبکہ دوسرا موقف جو ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف بیٹھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعتکاف کا آغاز نماز صبح کے بعد کرتے اکیس یا بیس کی صبح کو اس کا تعین واضح نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تاکہ اکیس کی رات معتکف میں آئے کیونکہ اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر میں دو عشرے اعتکاف کیا۔ نہ ملی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے اور آخری عشرے کا اعتکاف کیا تسلسل بھی جاری رکھا حتیٰ کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کر رہے تھے ان میں سے بعض بیسویں کی صبح اپنا بوریا بستر اٹھا کر گھر میں بھی پہنچا چکے تھے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا ہے وہ اپنے اعتکاف کو جاری رکھے۔ بیسویں رمضان تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر سے آخری عشرے کا آغاز کر دیا۔ (بخاری)

ذرا غور فرمائیں کہ آخری عشرے کا اعتکاف اکیسویں رات بعد از غروب آفتاب شروع ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیسویں کے دن کا اعتکاف صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیوں کروایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکیسویں رات کو ہی بلا لیتے اور کہہ دیتے کہ تم نے معتکف تو توڑ پھوڑ دیا ہے اب رات مسجد میں گزارو اور کل صبح یعنی اکیسویں کی صبح کی نماز کے بعد دوبارہ داخل ہو جاؤ۔ (مولانا عبدالسلام بستوی کے "اسلامی خطبات") ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر 20 کی صبح کو مسجد میں آ جائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے اکیسویں کو پورا تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے موقف کے لحاظ سے اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزاری اور اعتکاف کے ارادے سے اکیس کی صبح کو معتکف میں داخل ہوا تو آخری عشرے سے ایک رات خارج ہو جائے گی جو ایک نقص بھی ہے لہذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آ جائے اور نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھ جائے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر بہتر عمل ہو جائے گا صرف آخری عشرہ سے 12 گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس اضافے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی موقف کے قائل تھے اور یہ موقف مبنی بر احتیاط ہے۔ واللہ اعلم

جائز امور: معتکف کے لیے حالت اعتکاف میں نہانا، سر میں کنگھی کرنا، تیل لگانا اور حاجات ضروریہ مثلا پیشاب، پاخانہ، فرض غسل وغیرہ کے لیے جانا درست ہے۔(بخاری 1/272)

اعتکاف بیٹھنے والے کو بلا عذر شرعی اپنے معتکف سے باہر نہیں جانا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصیام،صفحہ:242

محدث فتویٰ

تبصرے