سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) تارک نماز کے روزے کا حکم

  • 22615
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 615

سوال

(182) تارک نماز کے روزے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تارک نماز کے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر وہ روزہ رکھے تو کیا اس کا روزہ درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بات یہ ہے کہ عمدا نماز ترک کرنے والا کافر ہے، لہذا جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ نہ کر لے اس کا روزہ اور اسی طرح دیگر عبادات درست نہیں، کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

﴿وَلَو أَشرَكوا لَحَبِطَ عَنهُم ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٨٨﴾... سورة الانعام

"اور اگر انہوں نے شرک کیا ہوتا تو وہ سب اکارت ہو جاتا جو وہ کرتے تھے۔"

نیز اس معنی کی دیگر آیات اور احادیث بھی تارک نماز کے اعمال اکارت ہو جانے کی دلیل ہیں۔

لیکن کچھ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ تارک نماز اگر نماز کی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی و لاپرواہی کی وجہ سے نماز چھوڑتا ہے، تو اس کا روزہ اور دیگر عبادات برباد نہیں ہوں گی، لیکن پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، یعنی عمدا نماز ترک کرنے والا کافر ہے، بھلے وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو، کیونکہ اس قول پر بے شمار دلائل موجود ہیں، انہیں دلائل میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے:

"بندہ کے درمیان اور کفر و شرک کے درمیان بس نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔"

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی:

"ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان جو معاہدہ ہے وہ نماز ہے، تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔"

اس حدیث کو امام احمد، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ نے بریدہ بن حصین اسلمی رضی اللہ عنہ کے طریق سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

اس بارے میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کے احکام اور نماز چھوڑنے کے احکام پر مشتمل ایک مستقل رسالہ (حکم تارک الصلاۃ) میں سیر حاصل گفتگو کی ہے، یہ رسالہ بڑا مفید اور قابل مطالعہ ہے، اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصیام،صفحہ:240

محدث فتویٰ

تبصرے