سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا ران بھی ستر میں داخل ہے؟

  • 226
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 920

سوال

کیا ران بھی ستر میں داخل ہے؟

سوال: کیا ران بھی ستر میں داخل ہے؟

جواب: بعض اوقات کوئی سوال نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
سوال : كيا سنت نبويہ ميں دليل ملتى ہے كہ گھٹنے سے ليكر ناف تك مرد كا ستر ہے، مجھے يہ دليل نہيں ملى ؟
الحمد للہ:
بہت سارى احاديث ميں آيا ہے كہ مرد كا ستر گھٹنے اور ناف كے درميان ہے، اور گھٹنا اور ناف ستر ميں شامل نہيں.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 173 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 2 / 286 ).
ان ميں سے كچھ احاديث درج ذيل ہيں:
1 - ابو داود اور ابن ماجہ رحمہما اللہ نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنى ران ننگى مت كرو، اور نہ ہى تم كسى زندہ يا مردہ كى ران ديكھو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3140 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1460 ).
2 - امام احمد نے محمد بن جحش رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم معمر كے پاس سے گزرے تو معمر كى رانيں ننگى تھيں اور ميں بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اے معمر اپنى رانيں ڈھانپ لو، كيونكہ رانيں ستر ميں شامل ہيں "
مسند احمد حديث نمبر ( 21989 ).
3 - احمد ابو داود اور ترمذى نے جرھد ب اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جرھد كے پاس سے گزرے تو ا نكى ران ننگى تھى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تمہيں معلوم نہيں كہ ران ستر ميں شامل ہے ؟ "
مسند احمد حديث نمبر ( 15502 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4014 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2798 ).
4 - امام ترمذى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ران ستر ميں شامل ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2798 ).
ان احاديث كے متعلق علامہ البانى رحمہ اللہ " اراواء الغليل " ميں كہتے ہيں:
" يہ احاديث اگرچہ سند ميں ضعف سے خالى نہيں..... يہ احاديث ايك دوسرے كو تقويت ديتى ہيں، كيونكہ ان ميں كوئى راواى متھم نہيں، بلكہ ا نكى علت اضطراب، جہالت، اور احتمال ضعف كےگرد گھومتى ہے صحيح حديث مروى ہونے كى بنا اس جيسى احاديث سے دل مطمئن ہوتا ہے، خاص كر امام حاكم نے ان ميں سے بعض كو صحيح كہا ہے، اور امام ذہبى نے ا نكى موافقت كى ہے، اور امام ترمذى نے كچھ كو حسن قرار ديا ہے، اور امام بخارى نے كچھ كو صحيح بخارى ميں معلقا بيان كيا ہے.....
بلاشك مصطلح حديث كا علم ركھنے اور اسے تلاش كرنے والا شخص يہ جانتا ہے كہ ان احاديث ميں سے ہر ايك معلول ہے..... ليكن يہ ہے كہ ان سب احاديث كى مجموع اسناد حديث كو قوت ديتى ہيں، تو يہ حديث صحيح كے درجہ تك پہنچ جاتى ہے، خاس كر اس باب ميں اور بھى شاہد وغيرہ ہيں " انتہى مختصرا.
ديكھيں: ارواء الغليل ( 1 / 297 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" اور يہ احاديث اگرچہ سب كى سنديں متصل نہ ہونے كا كہا جاتا ہے، يا پھر بعض راوي ضعيف ہيں، ليكن يہ ايك دوسرے كو تقويت ديتى ہيں، تو يہ سب مل كر مطلوبہ حجت تك پہنچ جاتى ہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 165 ).
اور جمہور فقھاء نے ان احاديث كے مقتضاء پر عمل كرتے ہوئے فيصلہ كيا ہے كہ مرد كا ستر گھٹے اور ناف كے مابين ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 284 ).
واللہ اعلم .

تبصرے