السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تعزیت صرف تین دن تک ہی محدود ہے یا اس کے بعد بھی جا کر اہل میت کے ہاں تعزیت کر سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تعزیت تین دن کے بعد بھی ہو سکتی ہے آدمی جب بھی مفید محسوس کرے تعزیت کر سکتا ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا ان پر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار مقرر کیا اور کہا اگر زید شہید کر دئیے گئے تو تمہارے امیر جعفر رضی اللہ عنہ ہوں گے اور اگر جعفر رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے تو تمہارے امیر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ہوں گے اس لشکر کی دشمن سے جب مڈ بھیڑ ہوئی تو زید رضی اللہ عنہ جھنڈا پکڑے ہوئے لڑے اور شہید ہو گئے پھر جعفر رضی اللہ عنہ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑا اور وہ بھی لڑے اور شہید ہو گئے۔ پھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑا تو اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح دے دی۔ ان کی خبر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو آپ لوگوں کی طرف نکلے اللہ کی حمد و ثناء کی اور فرمایا بلاشبہ تمہارے بھائیوں نے دشمن کا سامنا کیا زید نے جھنڈا پکڑا لڑے اور شہید ہو گئے ۔۔۔ پھر خالد بن ولید سیف من سیوف اللہ نے جھنڈا پکڑا تو اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح دی، پھر آپ تین دن تک آل جعفر کے ہاں جانے سے رکے رہے پھر اس کے بعد ان کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا آج کے بعد میرے بھائی تم مت رونا، میرے بھائی کے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، ہمیں لایا گیا ہم ایسے لگتے تھے جیسے چوزے ہوتے ہیں، آپ نے فرمایا سر مونڈنے والے کو بلاؤ، سر مونڈنے والا لایا گیا اس نے ہمارے سر مونڈ دئیے پھر آپ نے فرمایا محمد بن جعفر ہمارے چچا ابو طالب کا ہم شکل ہے اور عبداللہ شکل اور اخلاق میں میرے مشابہ ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ بلند کر کے دعا کی، اے اللہ! جعفر کے پیچھے اس کے اہل کا والی بن جا اور عبداللہ کے ہاتھ میں برکت دے، یہ بات آپ نے تین مرتبہ کہی، کہتے ہیں پھر ہماری والدہ آئیں انہوں نے ہماری یتیمی کا ذکر کیا اور آپ کو اپنا غم بتانے لگیں، آپ نے فرمایا تمہیں ان کی تنگ دستی کا فکر کیوں ہے میں دنیا اور آخرت میں ان کا سرپرست ہوں۔ (مسند احمد 1/204 (1750) تحقیق احمد شاکر)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین دن کے بعد بھی تعزیت ہو سکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب