السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۃ الاعلیٰ کی ابتدائی آیت ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ کے جواب میں سبحان ربى الاعلى مقتدیوں کو کہنا چاہیے یا امام کو، اسی طرح سورۃ غاشیہ کی آخری آیت کا جواب کیسے دینا چاہیے۔ (ابو ساریہ جاوید اقبال، دیپالپور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ اور سورۃ غاشیہ کا جواب دینے والی روایت درست نہیں۔ یہ روایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مسند احمد اور ابوداؤد وغیرہ میں مروی ہے اس کی سند میں ابو اسحاق السبیعی راوی مدلس ہے اور انہوں نے اپنے استاد سے یہ روایت سننے کی وضاحت نہیں کی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دیگر ثقہ راویوں نے اس کو مرفوع کی بجائے موقوف بیان کیا ہے یعنی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے فعل صحابی ہے۔ علاوہ ازیں اس سے مقتدی کا سبحان ربى الاعلى کہنا بالکل ثابت نہیں ہوتا۔ صرف قاری کے لئے ہے۔ ہمارے ہاں یہ جو رواج بن چکا ہے کہ امام جب ایسی آیات تلاوت کرتا ہے تو مقتدی اس کا جواب دیتے ہیں یہ صحیح نہیں اس کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔ البتہ امام یا قاری کے متعلق کچھ ثبوت ملتا ہے جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ اللیل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو تسبیح کہتے اور جب سوال والی آیت سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب تعوذ والی آیت سے گزرتے تو پناہ پکڑتے۔ (صحیح مسلم وغیرہ)
عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور بیہقی 2/311 وغیرھا میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نماز جمعہ میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ پر سبحان ربى الاعلى کہنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور بیہقی میں جواب دینا حالت نماز میں وارد ہے۔ لہذا قاری یا امام یہ آیات پڑھتے ہوئے جواب دے تو درست ہے مقتدی یا سامع کے لئے ثبوت موجود نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب